Thursday 30 January 2014

طالبان دہشت گرد، امریکہ کے پروردہ اور مغرب کے حمایت یافتہ

پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخواه کے مرکز پشاور کی گنجان آبادی والے علاقے میں ایک سو تیس سالہ قدیمی چرچ مبینہ طور پر دو خودکش حملہ آوروں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ دسیوں بے گناہ انسان خاک وخوں میں غلطاں اور بیسیوں افراد کے جسم کے چیتھڑے بکھر گئے جن میں مختلف سن وسال کے افراد خصوصا بچے اور عورتیں شامل ہیں۔
مارنے والے مسلمان اور مرنے والے عیسائی اور زخمیوں کو نجات دینے والے امدادی کارکن مسلمان۔ بڑی عجیب و غریب صورتحال ہے۔ گذشتہ دنوں مملکت شام کے حوالے سے خبر ملی تھی کہ وہاں القاعدہ سے وابستہ ایک گروہ نے ایک عیسائی بستی میں گھس کر تقریبا 130 افراد کو جن میں خواتین اور معصوم بچے بھی شامل تھے، نہایت بے دردی کے ساتھ قتل کردیا۔
یہ درندہ صفت لوگ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور کچھ دوسرے مسلمان نما لوگ ان کے ان کاموں کی توجیہ پیش کرتے ہیں۔ طالبان کے طرف دار بعض انتہائی معروف اور دیندار حضرات سے کہتے سنا ہے کہ یہ بم دھماکے اور خودکش حملے ردعمل ہے۔ عذر بدتر از گناہ کے مصداق یہ لوگ بتائیں کہ امریکی ڈرون حملوں، نیٹو کی بمباری اور پاکستانی فورسزکی کاروائی کا انتقام پاکستان کے عام شہریوں سے لینا کہاں کا انصاف ہے۔ گلوں میں قران لٹکانے والے طالبان کس جواز کے تحت لوگوں کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ 
طالبان کے بارے میں یہ بات سب پر عیاں ہوچکی ہے کہ طالبان کو بنانے والا امریکہ ہے اور امریکہ نے ہی اس کو پروان چڑھایا اور اپنے خاص مقاصد کے لئے ان سے فائدہ اٹھایا۔لیکن یہ بات سمجھنے والی ہے کہ جس زمانے میں طالبان کو وجود بخشاگیا اس وقت امریکہ، پاکستان، سعودی عرب اور بعض افغان جہادی قوتوں کے مفادات مشترک اور ایک تھے چنانچہ سب نے اپنے مفادات کے لئے اس نو ظہور یافتہ جماعت کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کیا۔
طالبان کے نام پر افغانستان کی سرنوشت مسلط ہونے والے افراد بھی خود کو مکمل طور با اختیار اور ملک و ملت کا پاسباں تصور کرتے تھے لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ تضادات اور اختلافات کو ایک خاص مدت تک کے لئے تو نظر انداز کیا جاسکتا ہے لیکن طویل المعیاد عرصے تک نظر انداز کرنے کے لئے ایک محکم اور مضبوط محرک کا ہونا ضروری ہے جس کا افغانستان کے تناظر میں دور دور تک شائبہ تک نہ تھا۔
پاکستان طالبان کے ذریعے افغانستان میں  ہندوستان کے اثر رسوخ کو ختم کرنے، اپنے اثر رسوخ کو بڑھانے اور وسطی ایشیا کے ملکوں کے لئے اپنے سامان تجارت کے لۓ راستہ چاہتا تھا۔ سعودی عرب ایران کے اثرو رسوخ سے خوفزدہ تھا اور نہیں چاهتا تھا کہ افغانستان میں ایران کے طرز کی انقلابی اور جمہوری حکومت تشکیل پائے۔ متحدہ عرب امارات، کویت، قطر اور دیگر رجعت پسند عرب ممالک اپنی امریکہ نوازی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے طالبان کی حمایت کرنے پر مجبور تھے۔ طالبان کو اپنے بے اختیار ہونے کا احساس اس وقت ہوا جب ان کو کابل کی بجائے قندھار میں امارت اسلامی کا دارالخلافہ بنانا پڑا۔
طالبان، پاکستان کے مدارس اور مساجد سے نکلنے والے ایسے نوجوان تھے کہ جن کی اکثریت دنیاوی تعلیم تربیت سے بے بہرہ تھی اور دینی تعلیم پر بھی ان کو کوئی خاص عبور حاصل نہیں تھا۔ ملا محمد عمر نامی ایک 25 26 سال کا نوجوان طالبان کا کمانڈر تھا جس کا جہادی تجربہ ایک کلاشنکوف سے زیادہ نہ تھا لہذا اس کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے میں امریکہ کو زیادہ دشواری کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔
امریکہ نے 9/11 کے مشکوک واقعے کے بعد طالبان کو اقتدار سے بے دخل کردیا اور ساری دنیا میں ان کو پھیلادیا اور اب جہاں کہیں بھی ایک چھوٹا سا واقعہ رونما ہوتا ہے اس کا تعلق طالبان یا القاعدہ سے جوڑکر اسلام کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حال حاضر میں اسلام کی حقیقی تعلیمات سے بے بہرہ کچھ  نام نہاد مفتی اپنے فتووں سے دہشت گردی کو جہاد قرار دے کر امریکہ کی معاونت کر رہے ہیں۔
عالم اسلام خصوصا پاکستان کے تناظر میں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طالبان یا القاعدہ کسی فرد یا افراد کا نام نہیں ہے کہ ان سے مذاکرات کرکے دہشت گردی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ ان کو اسلام دشمن طاقتوں کی اسٹراٹیجی سمجھ کر نمٹنے کی ضرورت ہے۔
افغان طالبان، پاکستانی طالبان، ازبک طالبان، چچن طالبان، پنجابی طالبان اور اب یورپی طالبان کا نام بھی سنے میں آرہا ہے۔ یہ سب طالبانزم کے ذیل میں آتے ہیں کہ جن کا باعث و بانی امریکہ ہے اور اس نظریئے سے نجات پانے کے لئے مذاکرات طالبان سے نہیں بلکہ امریکہ سے کرنے کی ضرورت ہے۔ شام کے مسائل کو دیکھتے ہوئے دنیا کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ امریکہ ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پردہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔
البتہ سعودی عرب کی معاونت کے بغیر امریکہ طالبانزم کو فروغ ںہیں دے سکتا لہذا  پاکستان کو اس معاملے میں اپنے قومی مفادات اور ملی یکجہتی  کی خاطر ریاض پر بھی دباؤ ڈالنا چاہیے۔ طالبان کے ساتھ یا باالفا ظ دیگر دہشت گردوں کے ساتھ جن کے ہاتھ کہنیوں تک بے گناہ انسانوں کے خون سے رنگین ہیں، مذاکرات بے معنی ہیں البتہ  پاکستان کے معصوم شہریوں کو طالبانزم سے بچانے اور ان کو اس گمراہ فکر سے دور رکھنے کے لئے قلیل المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
پشاور میں چرچ میں ہونے والا خودکش حملہ جس میں مبینہ طور پر دو حملہ آور شریک تھے کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ پاکستان میں مسلسل اس قسم کے واقعات رونما ہوہے ہیں اور ساری دنیا میں پاکستان کی ساکھ تو متاثر ہو ہی رہی ہے اسلام کی نورانیت پر بھی حرف آرہا ہے۔ چرچ پر حملے کو لے کر ساری مغربی دنیا میں مہینوں پاکستان اور اسلام کے خلاف پرو پیگنڈا کیا جاتا رہا رہےگا اور عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف مغربی ممالک کی طرف سے  ایک لہر چل پڑے گی،  البتہ اس پروپیگنڈےکا پاکستانی حکام  کے پاس ایک معقول جواب ہے کہ یہ دہشت گرد امریکہ کے پروردہ اور مغرب کے حمایت یافتہ  ہیں کہ جنہیں ایک سازش کے تحت پاکستان پر مسلط کیا گیا ہے۔

Sunday 26 January 2014

تحریک انصاف نے پی کے 50 ضمنی انتخابات میں دھاندلی کی بدترین مثال قائم کرکے دوسرے جماعتوں کو پیجھے جھوڑ دیا

پی کے 50 ہری پور 2 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 53 ہزار376ہے جبکہ کل 116پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے ہیں۔ یہ نشست پی ٹی آئی کیرکن صوبائی اسمبلی ایوب خان کی جعلی ڈگری کیس میں نااہلی کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کے امیدوار اکبر ایوب خان، مسلم لیگ ن کے قاضی اسد، آزاد امیدوار بابرنواز خان اور پیپلز پارٹی کے حاجی طاہرقریشی نمایاں امیدوارہیں پاکستان میں 11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات میں کئی حلقوں میں دھاندلی کے الزامات سامنے آئے ہیںلیکن تحریک انصاف نے پی کے 50 ضمنی انتخابات میں دھاندلی کی بدترین مثال قائم کی گئی ہے. بابر نواز خان کا نتائج تسلیم کرنے سے انکار انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ضمنی انتخاب میں ہونیوالی دھاندلی کا ضرور نوٹس لینا چاہئے اور ان تمام کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے جنہوں نے عوام کے حق پر ڈاکہ مارتے ہوئے پی کے 50 ہری پو میں دھاندلی سے تحریک انصاف کے امیدوار کو کامیاب کروایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہری پور کے عوام باشعور ہیں وہ دھاندلی کرنیوالوں کے چہروں کو دیکھ رہے ہیں اور انہیں کبھی معاف نہیں کرینگے

اکبرایوب خان نے 26 ہزار957   آزاد امیدوار بابر نواز خان نے 23 ہزار660 ووٹ لے کر دوسری جبکہ مسلم لیگ(ن) کے قاضی محمد اسد نے 22 ہزار028 ووٹ لے کر تیسری پوزیشن حاصل کی۔ ،

 
 

صوبہ خیبر پختونخوا میں ضلع ہری پور کا محل وقوع

ہری پور
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
صوبہ خیبر پختونخوا میں ضلع ہری پور کا محل وقوع

تاریخ

ہری پور شہر کی بنیاد1821 میں سکھ جنرل ہری سنگھ نلوہ نے فوجی نقطہ نظر سے رکھی۔ ہری پور شہر میں ایک قلعہ تعمیر کیا گیا جس کی دیواریں 4 میٹر چوڑی اور16 میٹر اونچی تھیں۔ قلعہ میں داخل ہونے کے لئے چار دروازے تھے۔ ہري پور کا نام رنجيت سنگھ کےايک سِکھ جرنيل ہري سنگھ نالوا کے نام پر رکھا گيا۔ ہري پور تحصيل کو يکم جولائي 1992 ميں ضلع کا درجہ دے کر ضلع ايبٹ آباد سے علحيدہ کر دياگيا۔
جغرافیہ

یہ شہر اسلام آباد سے 65 کلومیٹر اور ایبٹ آباد سے 35 کلومیٹر دور واقع ہے۔ اس ضلع کو جغرافيائي محلِ وقوع کے لحاظ سے کليدي حيثيّت حاصل ہے۔ کيونکہ يہ ضلع ہزارہ ڈویژن اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے مابين ايک پھاٹک کا درجہ رکھتا ہے۔ دنيابھر ميں مٹی کا بنا ہوا سب سے بڑا بند تربیلا بند اسي ضلع ميں دریائے سندھ پر تعمير کيا گيا ہے. يہ ڈيم 2200 ميگاواٹ بجلي پيدا کرتا ہے۔ صنعتي لحاظ سے ہري پور صوبہ خیبر پختونخواہ ميں بڑ ا ضلع ہے بڑے بڑے صنعتي يونٹ جيسے ٹيلي فون فيکٹري، ہزارہ فرٹيلائزر، پاک چائنا فرٹيلائزر، تربيلا کاٹن ملز اور کئي اُوني کارخانے قائم ہيں۔ علاوہ ازيں حطار انڈسٹریل اسٹیٹ ميں کئي چھوٹے بڑے کارخانے لگائے گئے ہيں۔ ان صنعتوں کي وجہ سے يہ ضلع ملکي سطح پر معاشي ترقي ميں ايک اہم کردار ادا کر رہاہے۔ ہري پور نے جہاں درمياني اور بڑي صنعتوں کے قيام ميں اہم پيش رفت کي ہے وہاں زرعي ميدان ميں بھي اس کاکردار قابلِ ستائش ہيں۔ یہ ضلع خاص کر سبزي اور پھل نہ صرف پشاور بلکہ اسلام آباد اور صوبہ پنجاب کو بھي مہياکرتا ہے۔ پشاور سے اسلام آباد موٹر وے اور غازی بروتھا بند پراجيکٹ کے قيام سے ضلع کي سماجي اور معاشي ترقي مزيد يقيني ہونے کا امکان ہے۔
شماریات

ہري پور ضلع کا کُل رقبہ1725 مربع کلوميٹر ہے۔

یہاں في مربع کلو میڑ 466 افراد آباد ہيں

سال 2004-05ميں ضلع کي آبادي 803000 تھی

دیہی آبادي کا بڑا ذریعہ معاش زراعت ہے۔

کُل قابِل کاشت رقبہ 77370 ہيکٹيرزھے
ہسپتال

سرکاری ہسپتال

    ضلع ہسپتال ہری پور جی ٹی روڈ
    ضلع ہسپتال ڈھینڈہ روڈ
    فوجی فاونڈیشن ہسپتال ڈھینڈہ روڈ


غیر سرکاری ہسپتال

    الغازی ہسپتال
    یحیٰی ہسپتال
    شاہ فیصل ہسپتال
   


ڈیم

خان پور ڈیم تربیلہ ڈیم پوتنی ڈیم

بیرون ملک فرار ملزمان کے ریڈوارنٹ جاری کرائیں گے، شاہد حیات

کراچی…کراچی پولیس چیف شاہد حیات نے جیونیوز سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس کا کام قربانیوں سے ہو کرگزرتا ہے۔ یونیفارم پہنی ہے حوصلہ نہیں ہاریں گے۔ان کا کہنا تھا جب تک آخری مجرم نہیں پکڑلیتے یہ جہاد جاری رہے گا۔جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی کراچی شاہد حیا ت نے کہا کہ ہم جرائم پیشہ افراد کے پیچھے جاتے ہیں کبھی وہ ہمارے پیچھے آتے ہیں ، کبھی وہ کامیاب اور کبھی ہم کامیاب ہوجاتے ہیں دہشت گرد حملوں سے پولیس کے حوصلے اور قوت ارادری پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ شاہد حیات نے کہا کہ یونیفارم پہنی ہے ہمارا کام ہی قربانیوں سے ہوکر گزرتا ہے جب تک آخری مجرم کو نہیں پکڑ لیتے یہ ہمارا جہاد ہے کرتے رہیں گے۔کراچی پولیس چیف نے بتایا کہ لانڈھی واقع کے بعد 90 کے قریب لوگوں کو حراست میں لیا ہے جن سے تفتیش کررہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پیرول پر ملک سے باہر جانے والوں کیلئے ریڈ وارنٹ جاری کرانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ شاہد حیات نے بتایا کہ بلٹ پروف جیکٹس کی خریداری کا مرحلہ جاری ہے۔آرمی کے 500 ریٹائرڈ افسران نے پولیس جوائن کرلی ہے مزید 600جوائن کریں گے جبکہ اینٹی انکروچمنٹ سیل کے لئے وزیر اعلی سندھ نے 400 اہلکاروں کی منظوری دے دی ہے ۔

جنرل ضیا نے کہا تھا امریکی امداد میں مونگ پھلی نہیں چاھئے

 جنرل ایوب سے قبل پاکستان ایک روپے کا بھی مقروض نہیں تھا ، امریکہ سے ، سیٹو، اور سینٹو فوجی معاھدے ایوب کے دور میں کئے گئے،
ایوب نے بڈھ بیڑ ہشاور کا مواصلاتی فضائ بیس روس اور چین کی فضائ جاسوسی کے لئے امریکہ کو دیا گیا جب روس نے امریکہ کا جاسوسی یو ٹو جاسوسی طیارہ سمیت پائلٹ کے اتارا اور دنیا کے سامنے ہیش کیا ، روس کی دھمکی کے بعد یہ اڈہ بند کیا گیا، اس فضائ اڈہ کے اندر کسی پاکستانی کو داخلے کی اجازت نہیں تھی،
یہانتک کے اس زمانے کی خبر مجھے آج بھی یاد ھے ، زولفقار علی بھٹو جو کہ اس وقت ایوب ھکومت کے وزیر خارجہ تھے انکو بھی باھر روک دیا گیا تھا
امریکہ ہی کے دباؤ مین آکر ایوب نے ھندوستان کیساتھ سندھ طاس معاھدہ کیا جسکے تحت پنجاب کے 3 دریاؤں کا پانی ھندوستان کو فروخت کردیا دریا راوی، بیاس، اور چناب،
اسکے بعد کیا جنرل ضیاء کے دور میں امریکی ڈالرون مے زور پر روس کے خلاف افغانستان میں جہاد نہیں کیا
کیا جنرل ضیاء کے اس بیان کو خبار نہیں سر اھتے رھے جو ضیاء نے امریکی صدر جمی کارٹر کو دیا تھا، ضیاء نے کہا تھا امریکی امداد میں مونگ پھلی نہیں چاھئے جب کارٹر نے امداد کی رقم بڑھادی تو اسنے خوشی سے قبول کرلی
کس صحافی اور سیاستدانون نے امریکہ سے ڈالر نہیں لئے ، اور اس بات سے آجتک کسنے انکار کیا ھے کہ 65 سال سے پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے دوست اتحادی نہیں ہیں،
یہ پاکستان کے اندر ھزاروں این جی اوز مختلف کام کر رہی ہیں کیا یہ سب پیسہ امریکہ سے نہیں آتا اور ان این جی اوز کے مالک ملازم پاکستانی لوگ نہیں ہیں،

ا، نواز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں بلوچستان کے شہری ایمل کانسی کو ڈیرہ غازی خان کے ھوٹل شالیمار سے امریکی کمانڈوز گرفتار کرکے نہیں لے گئے تھے ایمل کانسی نے سی آئ اے کے دو ایجنٹ قتل کئے تھے، اور ا سکی گرفتاری کا الزام فاروق لغاری جو کہ اس وقت ملک کے صدر تھے اور چودھری نثار جو اسوقت غالبا'' وزیر دفاع تھے لگا تھا کہ انہوں نے 20 لاکھ ڈالر وصول کئے تھے
اور امریکی سینیٹر کا وہ بیان بھی یاد کرو جو اسنے امریکی کانگریس میں دیا تھا اور 20لاکھ کی رقم دینے پر تنقیدا'' کہا تھا کہ '' پاکستانی 100 ڈالر میں ماں کو بیچ دیتے ہیں اور سی آئ اے نے 20 لاکھ ڈالر ایک شخص کی گرفتاری پر دے دئے
ماضی کے درجنون وقعات لکھے جا سکتے ہیں مواد کی کوئ کمی نہیں ھے

Sunday 12 January 2014

Shaheed Aitzaz Hasan and Shaheed CH Aslam

The next time you wonder how Pakistan has survived and how Pakistan will last remeber that it is because true sons of motherland DID NOT AND WILL NEVER NEGOTIATE!

Brave Boy.... True Hero of Pakistan

شیہد اعتزاز حسین









 

Saturday 11 January 2014

سلہڈ تا میر پور بائی پاس تعمیر کرین گے: وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ جناب پرویز خٹک کا دورہ ایبٹ آباد پریس کلب  نو تعمیر شدہ عمارت پریس کلب کا افتتاح کیا۔
صدر پریس کلب راجہ محمد ہارون کے مطالبے پر وزیر اعلیٰ نے ذیل اعلانات کےئے۔
میڈیا کالونی کے لےئے 2 کروڑ روپے کا اعلان۔
پریس کلب کے لےئے 2 ملین کی گرانٹ کا اعلان۔
ایبٹ آباد کے لےئے ریسکیو۱۱۲۲ سروس شروع کرنیکا اعلان۔
ایوب میڈیکل کمپلیکس کی او پی ڈی کمپیوٹرائزڈ کرنے سمیت سلہڈ تا میر پور بائی پاس کی تعمیرکیلئے اقدامات کا اعلان۔

Sunday 5 January 2014

حکومت جن لوگوں سے مذاکرات کرنے جارہی ہے وہ وطن، اسلام اور انسان دشمن لوگ ہیں, سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت مسلمین

مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور سنی اتحاد کونسل پاکستان کے تحت قومی امن کنونشن بیاد
شہدائے پاکستان کاانعقاد کیا گیا۔ سنی و شیعہ علما کے علاوہ عیسائی، سکھ اور ہندو برادری کے نمائندہ وفود بھی پروگرام میں شرکت کی۔ آل ہندو رائٹس موومنٹ کے ہارون سرب دیال، سکھ برادری کے نمائندہ سردار چربجیت سنکھ ساگر، اشوک چند اور پشاور کی عیسائی برادری کے نمائندہ اعجاز پادری نے بھی شرکت کی۔ یاد رہے کہ قومی امن کنونشن کا انعقاد کنونشن سنٹر اسلام آباد میں ہونا تھا لیکن انتظامیہ کی جانب سے اجازت نہ ملنے کے بعد پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے ڈی چوک پر منعقد ہوا۔ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ حکومت جن لوگوں سے مذاکرات کرنے جارہی ہے وہ وطن، اسلام اور انسان دشمن لوگ ہیں۔ جنہوں نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں جنہوں نے مساجد میں امام بارگاہوں میں بازاروں میں معصوم بچوں کو شہید کیا ہے۔ جنہوں نے غیرمسلم ہم وطنوں کی عبادت گاہوں کو مسمار کیا ہے۔ سنی اتحاد کونسل کے رہنما صاحبزادہ حامد رضا نے قومی امن کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں طالبان سے حکومتی مذاکرات کسی صورت بھی منظور نہیں ہیں۔