ایبٹ آباد(کرائم رپورٹر) منشیات فروشوں کی فائرنگ سے پولیس اہلکار اشتیاق شاہ نے جرأت مندی اور بہادری سے مقابلہ کیا معززین علاقہ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز منشیات فروشوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں پولیس کا جوان شدید زخمی ہوا اشتیاق شاہ نے بہادری سے ملزمان کا مقابلہ کیا اطلاع کے مطابق نڈر پولیس اہلکار اشتیاق شاہ کی بکوٹ میں بھی جرائم پیشہ افراد کے کلاف کاروائی میں ٹانگ ٹوٹ چکی تھی عوام نے اس جرأت مند بے لوث نوجوان کو اپ گریڈ کرنے کا محکمہ سے مطالبہ کیا اور کہا ہے کہ جرأت مند اہلکار نے علاقے سے منشیات فروشوں کے خاتمے کیلئے کلیدی کردار ادا کیا جس پر اعلیٰ حکام اسے تعریفی اسناد سے نوازیں اور فرض شناس اور نڈر پولیس اہلکار کو ترقی دی جائے تاکہ علاقے میں قیام امن اور ایسے گروہوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے زخمی اہلکار اشتیاق شاہ نے ندائے ہزارہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علاقے سے جرائم کے خاتمے کیلئے اپنی جان دینے کیلئے بھی تیار ہوں اور آئندہ بھی عوام کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے کی کوشش کروں گا چاہے زندگی سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھونا پڑے۔
Thursday, 18 October 2012
Wednesday, 17 October 2012
خیبر پختونخوا کے وزیر کھیل سید عاقل شاہ کے وارنٹ گرفتاری جاری
پشاور… ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پشاور شہبر خان نے خیبر پختونخوا کے وزیر کھیل سید عاقل شاہ کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے۔ پشاورکی مقامی عدالت میں صوبائی وزیر کھیل عاقل شاہ کی ڈگریوں سے متعلق کیس کی سماعت آج ہوئی۔جس میں خیبر پختونخوا کے وزیر کھیل سید عاقل شاہ ا عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ جس پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شہبرخان نے صوبائی وزیر کھیل کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 20 اکتوبر تک ملتوی کردی۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صوبائی وزیر کھیل عاقل شاہ کی ڈگریاں کو جعلی قرار دیا تھا۔ اور کیس متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت بھیج دیا تھا۔
Labels:
Hazara news.
زیتون کشید کرنے کیلئے خصوصی مشین تیار
زرعی سائنسدانوں نے زیتون کو پھل سے قبل کشید کرنے کیلئے خصوصی مشین تیار کر لی ہے جو بیرون ملک سے درآمد کی جانیوالی مشینوں سے انتہائی سستی اور معیار میں امپورٹ کوالٹی کی مشینوں سے بہتر نتائج کی حامل ہے۔ بارانی زرعی ترقیاتی ادارہ کے ترجمان کے مطابق مقامی طور پر تیار کردہ مذکورہ مشین شاندار اوصاف رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک کو ہر سال اربوں روپے مالیت کا خوردنی تیل بیرون ممالک سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ زیتون انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس کی کاشت سے ملکی معیشت پر اضافی بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔ کاشتکاروں کو چاہیے کہ وہ خوردنی تیل میں خود کفیل ہونے کیلئے زیتون کی زیادہ سے زیادہ کاشت یقینی بنائیں تا کہ ملک کیلئے قیمتی زرمبادلہ بچایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں مزید معلومات کیلئے بارانی زرعی ترقیاتی ادارہ سے بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک کو ہر سال اربوں روپے مالیت کا خوردنی تیل بیرون ممالک سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ زیتون انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس کی کاشت سے ملکی معیشت پر اضافی بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔ کاشتکاروں کو چاہیے کہ وہ خوردنی تیل میں خود کفیل ہونے کیلئے زیتون کی زیادہ سے زیادہ کاشت یقینی بنائیں تا کہ ملک کیلئے قیمتی زرمبادلہ بچایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں مزید معلومات کیلئے بارانی زرعی ترقیاتی ادارہ سے بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
Labels:
Abbottabad News,
Hazara News
Saturday, 13 October 2012
کمشنر ہزارہ نے شملہ پہاڑی پر میڈیا کالونی کا افتتاح کر دیا
ایبٹ آباد:کمشنر ہزارہ ڈویژن محمدخالد خان عمر زئی نے جمعرات کے روز شملہ پہاڑی پر امیر حیدر خان ہوتی میڈیا کالونی کا افتتاح کیا جو کہ 50 کنال پر مشتمل ہے ایبٹ آباد میڈیا کالونی کا اعلان وزیر اعلی خیبر پختونخوا امیر حیدر خان ہوتی نے اپنے ایبٹ آباد کے دورہ کے دوران کیا تھا۔اس موقع پر خالد خان عمر زئی نے کہا کہ میڈیا ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور میڈیا کے تعاون کے بغیر کوئی بھی معرکہ سر نہیں کیا جا سکتا موجودہ صوبائی حکومت نے نہ صرف ایبٹ آباد بلکہ پورے صوبے کے صحافیوں کے مسائل کے حل کے لئے بھر پور توجہ دی ہے اور خطیر وسائل مہیا کئے ہیں صوبے کے تمام اضلاع میں پریس کلب کی عمارات تعمیر کروائی جا رہی ہیں اور سرکاری اراضی سے میڈیا کالونیاں بھی دی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایبٹ آباد ،مانسہرہ اور ہری پور کے صحافیوں کے لئے میڈیا کالونیوں کے وعدے پورے کر دئیے ہیں اور اس سلسلے میں وزیر اعلی امیر حیدر خان ہوتی اور وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے گہری دلچسپی لی ہے ایبٹ آباد کے صحافیوں نے تعمیری صحافت کے ساتھ ساتھ ہزارہ کے امن و امان کو بر قرار رکھتے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے ہر موقع پر انتظامیہ کا ساتھ دیا ہے۔پریس کلب کے صدر میر محمد اعوان،جنرل سیکریٹری سردار نوید عالم،ایبٹ آباد یونین آف جرنلسٹس کے صدر محمد شاہد چوہدری ،جنرل سیکرٹری سردار شفیق احمد ،سابق صدر عامر شہزاد جدون اور سابق جنرل سیکریٹری پریس کلب راجہ محمد ہارون کے علاوہ ڈی سی او ایبٹ آباد سید امتیاز حسین شاہ ،محکمہ اطلاعات کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد طیب بمعہ عملہ، ڈی پی او کریم خان نے بھی تقریب سے خطاب کیا ۔تقریب میں ڈی او آر ایبٹ آباد فضل محمود ،اے سی او ایبٹ آباد اسامہ احمد وڑائچ ،تحصیل دار رحیم داد اور سیکریٹری آر ٹی اے حلیم خان کے علاوہ بڑی تعداد میں صحافیوں مختلف محکموں کے افسران نے بھی شرکت کی۔ قبل ازیں کمشنر ہزارہ نے ایک کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے ایبٹ آباد پریس کلب کے فیز ون کا بھی افتتاح کیا۔
Labels:
Abbottabad News
دہشت گردوں کیخلاف فیصلہ کن کارروائی کا وقت آگیا، میاں افتخار
پشاور… خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ درہ آدم خیل میں خود کش دھما کے میں امن لشکر ٹارگٹ تھا ۔لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور میں میڈیا سے گفت گو کرتے ہوئے میاں افتخار حسین کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ امن قائم کرنے کے لیے موثر آپریشن ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد پشاور میں پریشر بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں ، ہم پہلے سے ہی قربانیاں دے رہے ہیں اب وقت ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے، مجھے اللہ پر یقین ہے کامیابی ہماری ہی ہو گی، ہم اپنی دھرتی کی حفاظت کریں گے۔
Labels:
Abbottabad News
اسرائیل میں ڈرون طیارہ ہم نے بھیجا، حزب اللہ
بیروت: لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ نے تسلیم کیا ہے کہ اسرائیل میں گزشتہ دِنوں ڈرون طیارہ اس کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔ بغیر پائلٹ کا یہ طیارہ اسرائیلی حدود میں پچیس میل تک اندر چلا گیا تھا جس کے بعد اسرائیلی فورسز نے اسے مار گرایا تھا۔ لبنانی حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے ٹیلی وژن پر ایک تقریر کے دوران کہا ہے کہ اسرائیل بھیجے جانیوالے ڈرون کے پارٹس ایران میں بنائے گئے تھے جبکہ لبنان میں حزب اللہ نے انہیں جوڑ کر طیارہ مکمل کیا تھا۔ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے اس بیان کی تصدیق کی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ڈرون طیارہ ان کے ملک میں بھیجنے کے پیچھے حزب اللہ کا ہاتھ ہے۔ نصر اللہ کا کہنا تھا کہ ڈرون جنوبی فلسطینی علاقے کے اندر حسّاس تنصیبات کے اْوپر پہنچا تھا اور اسے دیمونا نیوکلیئر ری ایکٹر کے قریب گرایا گیا۔
Labels:
Abbottabad News,
Hazara News
Thursday, 11 October 2012
شہد کی مکھی
وان فریش وہ شخص تھا کہ جس کو 1973 میں شہد کی مکھیوں کے متعلق تحقیق کرنے پر نوبل پرائز دیا گیا تھا، شہد کی مکھی کوجب کوئی نیا باغ یا پھول ملتا ہے تو واپس جا کر اپنی دوسری مکھیوں کو بھی اس کے متعلق صحیح سمت اور نقشے سے آگاہ کرتی ہے، جس کو مکھی کا ناچ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ مکھی کی یہ نقل وحرکت اور اپنی دوسری کارکن مکھیوں کو اطلاعات کی فراہمی کا ثبوت سائنسی طور پر تصویروں اور دوسرے طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے دریافت کر لیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں شہد کی مکھی کی جنس مونث بیان کی گئی ہے۔ جو شہد کو اکٹھا کرنے کے لیے گھر سے نکلتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں سپاہی یا کارکن مکھی ایک مادہ مکھی ہوتی ہے۔
شیکسپیئر کے ایک ڈرامے ہنری دی فورتھ میں کچھ خاکے شہد کی مکھی کے متعلق بھی تھے، جس میں ظاہر یہ کیا جاتا تھا کہ شہد کی مکھیاں سپاہی ہیں اور ان کا ایک بادشاہ ہے۔ یعنی شیکسپیئر کے زمانے تک لوگ یہی خیال کرتے تھے کہ کارکن مکھیاں نر مکھیاں ہیں جو اپنے بادشاہ مکھی کو جواب دہ ہیں تاہم یہ بات غلط ہے کیونکہ کا رکن مکھیاں مادہ ہوتی ہیں اور یہ اپنی ملکہ مکھی کو جواب دہ ہوتی ہیں مگر یہ بات جدید تحقیق کے بعد سامنے آئی ہے جو پچھلے 300 سال سے جاری تھی۔
اللہ تعالی نے شہد کی مکھی کے بارے میں درج ذیل آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا ہے
نیز آپ کے پروردگار نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں میں، درختوں میں، اور انگور وغیرہ کی بیل میں اپنا گھر چھتا بنا۔ پھر ہر قسم کے پھل سے اس کا رس چوس اور اپنے پروردگار کی ہموار کردہ راہوں پر چلتی رہ۔ ان مکھیوں کے پیٹ سے مختلف رنگوں کا مشروب (شہد) نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔ یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔
نحل شہد کی مکھی کو کہتے ہیں جو عام مکھی یعنی ذباب سے بڑی ہوتی ہے اور اس سور کا نام النحلاسی نسبت سے ہے کہ اس سورت میں نحل کا ذکر آیا ہے۔ اس مکھی کی طرف وحی کرنے سے مراد فطری اشارہ یا تعلیم ہے جو اللہ تعالی نے ہر جاندار کی جبلت میں ودیعت کر رکھی ہے جیسے کہ بچہ پیدا ہوتے ہی ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکتا ہے تا کہ وہاں سے اپنے لیے غذ ا حا صل کر سکے حالانکہ اس وقت اسے کسی بات کی سمجھ نہیں ہوتی۔ یہ اسی فطری وحی کا اثر ہے کہ وہ اپنے لیے ایسا چھتا یا اپنا گھر بناتی ہے جسے دیکھ کر انسا ن حیران رہ جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی ماہر انجنیئر نے اس کی ڈیزائننگ کی ہے۔
اس چھتے کا ہر خانہ چھ پہلو والا یعنی مسدس ہوتا ہے جس کے تمام ضلعے مساوی لمبائی کے ہوتے ہیں اور اس طرح ایک دوسرے سے متصل یا جڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان میں کہیں خالی جگہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ انہیں خانوں میں مکھیاں شہد کا ذخیرہ کرتی ہیں اور بیرونی خانوں پر پہرہ دار مکھیاں ہوتی ہیں۔ جو اجنبی مکھیوں یا کیڑوں کو ان خانوں میں گھسنے نہیں دیتیں۔
ایک مکھی ان مکھیوں کی سردار یا ان کی ملکہ ہوتی ہے جسے عربی میں یعسوب کہتے ہیں۔ باقی سب مکھیاں اس کی تابع فرمان ہوتی ہیں، مکھیاں اسی کے حکم سے رزق کی تلاش میں نکلتی ہیں اور اگر وہ ان کے ہمراہ چلے تو سب اس کی پوری حفاظت کرتی ہیں اور ان میں ایسا نظم وضبط پا یا جاتا ہے جسے دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اتنے چھوٹے سے جاندار میں اتنی عقل اور سمجھ کہا ں سے آ گئی۔ مکھیاں تلاش معاش میں اڑتی اڑتی دور دراز جگہوں پر جا پہنچتی ہیں اور مختلف رنگ کے پھلوں، پھولوں، اور میٹھی چیزوں پر بیٹھ کر ان کا رس چوستی ہیں۔ پھر یہی رس اپنے چھتا کے خانوں میں لا کر ذخیرہ کرتی رہتی ہیں اور اتنی سمجھدار ہوتی ہیں کہ واپسی پر اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتیں۔ راستے میں خواہ ایسے کئی چھتے موجود ہوں وہ اپنے ہی چھتا یا گھر پہنچیں گی۔ گویا ان مکھیوں کا نظم وضبط ،پیہم آمدورفت ،ایک خاص قسم کا گھر تیار کرنا، پھر باقاعدگی کے ساتھ اس میں شہد کو ذخیرہ کرتے جانا، یہ سب راہیں اللہ نے مکھی کے لیے اس طرح ہموار کر دی ہیں کہ اسے کبھی سوچنے اور غور و فکر کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
دنیا میں تمام جانور، پرندے، کیڑے مکوڑے اپنے تخفظ کے لیے گھر بناتے ہیں مگر جس طرح کا خوبصورت گھر شہد کی مکھی بناتی ہے اور پھر اس کا انتظام چلاتی ہے کسی اور پرند اور چرند کے یہاں نہیں ملتا۔ شہد کی مکھی کا وجود اندازا 10 کروڑ سال سے پایا جاتا ہے۔ ان میں کام کرنے کے لحاظ سے مکھیوں کی درجہ بندی ہوتی ہے۔ چھتے میں تین طرح کی مکھیاں ہوتی ہیں۔ ملکہ مکھی ۔ نکھٹومکھی اور کارکن مکھی ۔ مکھیوں کا چھتا چھ کونوں والے خانوں پر مشتمل ہوتا ہے، جن کی دیواریں موم سے بنتی ہیں۔ ان میں دراڑوں اور سوراخوں کو بند کرنے کے لیے درختوں کی کونپلوں سے بیروزہ کی طرح کا ایک لیس دار مادہ پروپولس حاصل کیا جاتا ہے۔ ان چھتوں میں درجہ حرارت کو قائم رکھنے کے لیے ایئرکنڈیشنڈ کا مربوط نظام ہے اور مکھیاں اپنے پسندیدہ حالات میں شدید جدوجہد کی ایک فعال زندگی گزارتی ہیں۔ یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے کہ ان مکھیوں نے آٹھ ضلعی یا پانچ ضلعی کے بجائے چھ اضلاع والی مسدسی شکل کو کیوں چنا۔ اس کی دلیل ریاضی دان یہ دیتے ہیں
چھ ضلعی ڈھانچہ ایک ایسی موزوں ترین جیومیٹری شکل ہے جس میں اکائی کا زیادہ سے زیادہ علاقہ استعمال ہو سکتا ہے۔ اگر شہد کے چھتے کے خانوں کو کسی اور شکل میں بنایا جاتا تو غیر استعمال شدہ علاقے باقی رہ جاتے ہیں۔ اس طرح کم شہد ذخیرہ ہو تا اور کم تعدا د میں مکھیاں اس سے مستفید ہوتیں علاوہ ازیں تعمیری لحاظ سے چھ ضلعی خانوں کے لیے کم سے کم موم کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ان میں شہد کی زیادہ سے زیادہ مقدار ذخیرہ کی جا سکتی ہے۔ شہد کی مکھیوں نے یقینا یہ نتیجہ خود حساب کتاب کر کے نہیں نکالا ہو گا۔ اس پر تو انسان بہت سی پیچیدہ جیومیٹریائی جمع تفریق کے بعد پہنچا ہے۔ پیدائشی طور پر ہی یہ چھوٹے چھوٹے جانور چھ ضلعی تعمیری شکل استعمال کرتے ہیں کیونکہ انہیں ان کے مالک نے اب تک یہی سکھایا اور اسی کی ان کے لیے وحی کی ہے۔
چھتے میں جنسی طورپر نمو پانے والی مکھی صرف ملکہ مکھی ہی ہوتی ہے اورجسامت کے لحاظ سے بھی یہ سب سے بڑی مکھی ہوتی ہے۔ کارکن مکھیاں ملکہ مکھی کی پیدائش کے لیے 2 دن کے لاروے کا انتخاب کرتی ہیں۔ اور یہ 11 دن کے بعد اپنے انڈے یا سیل سے برآمد ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ 18 نکھٹو مکھیوں(نر) کی ایک جماعت کے ساتھ جفتی کرتی ہے اور اس جفتی کے دوران یہ انڈے بنانے کے لیے لاکھوں جرثومے حاصل کرتی ہے ،جن کو یہ اپنی دو سالہ عمر کے دوران استعمال کر لیتی ہے۔ جفتی کے دس دن بعد ملکہ مکھی انڈے دینا شروع کر دیتی ہے۔ یہ روزانہ 3000 کے قریب انڈے دے سکتی ہے۔
نکھٹو مکھی جو کہ نر مکھی ہوتی ہے اس کا چھتوں میں شہد کے بنانے میں کوئی کردار نہیں ہوتا اورنہ ہی یہ پھولوں سے رس چوستی ہے ،اس کا صرف ایک کام ہے کہ وہ ملکہ مکھی کے ساتھ جفتی کرتی ہے۔ علاوہ ازیں اگر چھتے میں خوراک کی کمی وغیرہ ہو جائے تو انہیں چھتے سے باہر بھی نکال دیا جاتا ہے۔ کارکن مکھیاں جسامت کے اعتبار سے سب سے چھوٹی ہوتی ہیں۔ ایک چھتے میں 50,000 سے 60,000 کارکن مکھیاں ہوتی ہیں، ان کی عمر بھی مختصر ہوتی ہے اور یہ 28 سے 35 دن تک ہوتی ہے ، تاہم ستمبر اور اکتوبر کے درمیان پیدا ہونے والی مکھیاں سردیوں کا پورا موسم گزارتی ہیں۔ یہ ایک منٹ میں 11,400 دفعہ اپنے پروں کو پھڑپھڑاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی پرواز کے دوران ایک نمایاں بھنبھناہٹ سی محسوس ہوتی ہے۔
کارکن مکھیاں انڈوں سے بچے نکالنے،ان کو غذا مہیا کرنے اوران کے لیے رہائشی کمرے تیار کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتی ہیں۔ ان کی آبادیوں میں بے کار افراد کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ کارکن مکھیاں تمام دن اڑتی ہوئی پھولوں سے ماالحیات نیکٹر تلاش کرتی ہیں۔ ہر پھول کے نیچے مٹھاس کا ایک قطرہ ہوتا ہے۔ مکھیاں اس کی تلاش میں ڈال ڈال منڈلاتی ہیں اور جہاں سے مل جائے اسے اپنے منہ کی تھیلی میں رکھ کر چھتے کو لوٹ جاتی ہیں اور اپنی برادری کو اس علاقہ میں مزید ماالحیات کی موجودگی یا غیر موجودگی کی اطلاع بھی دیتی ہیں۔ ابتدائی طور پر اس ماالحیات میں 50 سے 80 فی صد پانی ہوتا ہے۔ چھتے میں لے جا کر اسے گاڑھا کیا جاتا ہے اور جب اس سے شہد بنتا ہے تو اس میں پانی کی مقدار 16 سے 18 فی صد کے درمیان رہ جاتی ہے۔
یہ مکھیاں خط استوا کی حدت سے لے کر برفانی میدانوں کی برودت تک میں زندہ رہ سکتی ہیں۔ مگر ان کے چھتے کا اندرونی درجہ حرارت 34 سینٹی گریڈ کے قریب رہتا ہے۔ اگر اس پاس کا موسم 49 سینٹی گریڈ تک بھی گرم ہو جائے تو چھتا متاثر نہیں ہوتا۔ ٹھنڈک میں زیادتی کی وجہ سے ذخیرہ پر گزر اوقات اور خوشگوار موسم کا انتظار کرتی ہیں۔ ایک چھتا سال میں تقریبا 500 کلو گرام ماالحیات حاصل کر کے اس سے شہد تیار کرتا ہے، چھتوں میں شہد کے علاوہ موم اور پولن کے دانے بھی ذخیرہ کیے جاتے ہیں۔ پھولوں کی پتیوں کے درمیان ان کے تولیدی اعضا ہوتے ہیں۔ مکھی جب اس کو چوسنے کے لیے کسی پھول پر بیٹھتی ہے تو نر پھولوں کے تولیدی دانے اس کے جسم کو لگ جاتے ہیں جن کو پولن کہتے ہیں۔ پولن کے دانے لگی مکھی جب دوسرے پھول پر بیٹھتی ہے تو اس کے نسوانی حصے ان دانوں کو اپنی جانب کھینچ کر باروری حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح مکھی کی اڑان زراعت کے لیے ایک نہایت مفید خدمت سر انجام دیتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں پیدا ہونے والی 90 اقسام کی زرعی پیداوار کی ترویج اور باروری صرف شہد کی مکھی کی مرہون منت ہے۔ پولن کے جو دانے بچ جاتے ہیں ان کو چھتے میں لے جا کر کارکنوں کی خوراک میں لحمی اجزا کے طور پر شامل کر دیا جاتا ہے۔ ان کی کچھ مقدار شہد میں بھی موجود ہوتی ہے۔
شہد بیماریوں کے لیے شفا ہے
مختلف رنگوں کامشروب (شہد) نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غورو فکر کرتے ہیں۔
قرآن نے شہد کو شفا للناس کہا ہے۔جس کی افادیت کو آج سائنس نے بھی تسلیم کر لیا ہے۔ شہد کے کئی رنگ ہوتے ہیں۔ زرد ،سفیدی مائل یا سرخی مائل یا سیاہی مائل۔ اور ان رنگوں کے بھی مختلف اسباب ہوتے ہیں۔ تاہم ہر قسم کے شہد میں چند مشترکہ خواص ہیں۔سب سے اہم خاصیت یہ کہ ہے بہت سی بیماریوں کے لیے شفا کا حکم رکھتاہے الا یہ کہ مریض خود سو مزاج کا شکارنہ ہو جیساکہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے:
ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس آکر کہنے لگا میرے بھائی کا پیٹ خراب ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا اس کو شہد پلا وہ دوبارہ آ کر کہنے لگا ،یا رسول اللہ ! شہد پلانے سے تو اس کا پیٹ اور خراب ہو گیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا قول سچا اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ جا اسے پھر شہد پلاوہ تیسری بار آیا اور کہنے لگا میں نے شہد پلایا لیکن اسے اور زیادہ پاخانے لگ گئے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اللہ نے سچ کہا اور تیرے بھائی کے پیٹ نے جھوٹ کہا اس نے پھر شہد پلایا تو وہ تندرست ہو گیا۔
شیکسپیئر کے ایک ڈرامے ہنری دی فورتھ میں کچھ خاکے شہد کی مکھی کے متعلق بھی تھے، جس میں ظاہر یہ کیا جاتا تھا کہ شہد کی مکھیاں سپاہی ہیں اور ان کا ایک بادشاہ ہے۔ یعنی شیکسپیئر کے زمانے تک لوگ یہی خیال کرتے تھے کہ کارکن مکھیاں نر مکھیاں ہیں جو اپنے بادشاہ مکھی کو جواب دہ ہیں تاہم یہ بات غلط ہے کیونکہ کا رکن مکھیاں مادہ ہوتی ہیں اور یہ اپنی ملکہ مکھی کو جواب دہ ہوتی ہیں مگر یہ بات جدید تحقیق کے بعد سامنے آئی ہے جو پچھلے 300 سال سے جاری تھی۔
اللہ تعالی نے شہد کی مکھی کے بارے میں درج ذیل آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا ہے
نیز آپ کے پروردگار نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں میں، درختوں میں، اور انگور وغیرہ کی بیل میں اپنا گھر چھتا بنا۔ پھر ہر قسم کے پھل سے اس کا رس چوس اور اپنے پروردگار کی ہموار کردہ راہوں پر چلتی رہ۔ ان مکھیوں کے پیٹ سے مختلف رنگوں کا مشروب (شہد) نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔ یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔
نحل شہد کی مکھی کو کہتے ہیں جو عام مکھی یعنی ذباب سے بڑی ہوتی ہے اور اس سور کا نام النحلاسی نسبت سے ہے کہ اس سورت میں نحل کا ذکر آیا ہے۔ اس مکھی کی طرف وحی کرنے سے مراد فطری اشارہ یا تعلیم ہے جو اللہ تعالی نے ہر جاندار کی جبلت میں ودیعت کر رکھی ہے جیسے کہ بچہ پیدا ہوتے ہی ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکتا ہے تا کہ وہاں سے اپنے لیے غذ ا حا صل کر سکے حالانکہ اس وقت اسے کسی بات کی سمجھ نہیں ہوتی۔ یہ اسی فطری وحی کا اثر ہے کہ وہ اپنے لیے ایسا چھتا یا اپنا گھر بناتی ہے جسے دیکھ کر انسا ن حیران رہ جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی ماہر انجنیئر نے اس کی ڈیزائننگ کی ہے۔
اس چھتے کا ہر خانہ چھ پہلو والا یعنی مسدس ہوتا ہے جس کے تمام ضلعے مساوی لمبائی کے ہوتے ہیں اور اس طرح ایک دوسرے سے متصل یا جڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان میں کہیں خالی جگہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ انہیں خانوں میں مکھیاں شہد کا ذخیرہ کرتی ہیں اور بیرونی خانوں پر پہرہ دار مکھیاں ہوتی ہیں۔ جو اجنبی مکھیوں یا کیڑوں کو ان خانوں میں گھسنے نہیں دیتیں۔
ایک مکھی ان مکھیوں کی سردار یا ان کی ملکہ ہوتی ہے جسے عربی میں یعسوب کہتے ہیں۔ باقی سب مکھیاں اس کی تابع فرمان ہوتی ہیں، مکھیاں اسی کے حکم سے رزق کی تلاش میں نکلتی ہیں اور اگر وہ ان کے ہمراہ چلے تو سب اس کی پوری حفاظت کرتی ہیں اور ان میں ایسا نظم وضبط پا یا جاتا ہے جسے دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اتنے چھوٹے سے جاندار میں اتنی عقل اور سمجھ کہا ں سے آ گئی۔ مکھیاں تلاش معاش میں اڑتی اڑتی دور دراز جگہوں پر جا پہنچتی ہیں اور مختلف رنگ کے پھلوں، پھولوں، اور میٹھی چیزوں پر بیٹھ کر ان کا رس چوستی ہیں۔ پھر یہی رس اپنے چھتا کے خانوں میں لا کر ذخیرہ کرتی رہتی ہیں اور اتنی سمجھدار ہوتی ہیں کہ واپسی پر اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتیں۔ راستے میں خواہ ایسے کئی چھتے موجود ہوں وہ اپنے ہی چھتا یا گھر پہنچیں گی۔ گویا ان مکھیوں کا نظم وضبط ،پیہم آمدورفت ،ایک خاص قسم کا گھر تیار کرنا، پھر باقاعدگی کے ساتھ اس میں شہد کو ذخیرہ کرتے جانا، یہ سب راہیں اللہ نے مکھی کے لیے اس طرح ہموار کر دی ہیں کہ اسے کبھی سوچنے اور غور و فکر کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
دنیا میں تمام جانور، پرندے، کیڑے مکوڑے اپنے تخفظ کے لیے گھر بناتے ہیں مگر جس طرح کا خوبصورت گھر شہد کی مکھی بناتی ہے اور پھر اس کا انتظام چلاتی ہے کسی اور پرند اور چرند کے یہاں نہیں ملتا۔ شہد کی مکھی کا وجود اندازا 10 کروڑ سال سے پایا جاتا ہے۔ ان میں کام کرنے کے لحاظ سے مکھیوں کی درجہ بندی ہوتی ہے۔ چھتے میں تین طرح کی مکھیاں ہوتی ہیں۔ ملکہ مکھی ۔ نکھٹومکھی اور کارکن مکھی ۔ مکھیوں کا چھتا چھ کونوں والے خانوں پر مشتمل ہوتا ہے، جن کی دیواریں موم سے بنتی ہیں۔ ان میں دراڑوں اور سوراخوں کو بند کرنے کے لیے درختوں کی کونپلوں سے بیروزہ کی طرح کا ایک لیس دار مادہ پروپولس حاصل کیا جاتا ہے۔ ان چھتوں میں درجہ حرارت کو قائم رکھنے کے لیے ایئرکنڈیشنڈ کا مربوط نظام ہے اور مکھیاں اپنے پسندیدہ حالات میں شدید جدوجہد کی ایک فعال زندگی گزارتی ہیں۔ یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے کہ ان مکھیوں نے آٹھ ضلعی یا پانچ ضلعی کے بجائے چھ اضلاع والی مسدسی شکل کو کیوں چنا۔ اس کی دلیل ریاضی دان یہ دیتے ہیں
چھ ضلعی ڈھانچہ ایک ایسی موزوں ترین جیومیٹری شکل ہے جس میں اکائی کا زیادہ سے زیادہ علاقہ استعمال ہو سکتا ہے۔ اگر شہد کے چھتے کے خانوں کو کسی اور شکل میں بنایا جاتا تو غیر استعمال شدہ علاقے باقی رہ جاتے ہیں۔ اس طرح کم شہد ذخیرہ ہو تا اور کم تعدا د میں مکھیاں اس سے مستفید ہوتیں علاوہ ازیں تعمیری لحاظ سے چھ ضلعی خانوں کے لیے کم سے کم موم کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ان میں شہد کی زیادہ سے زیادہ مقدار ذخیرہ کی جا سکتی ہے۔ شہد کی مکھیوں نے یقینا یہ نتیجہ خود حساب کتاب کر کے نہیں نکالا ہو گا۔ اس پر تو انسان بہت سی پیچیدہ جیومیٹریائی جمع تفریق کے بعد پہنچا ہے۔ پیدائشی طور پر ہی یہ چھوٹے چھوٹے جانور چھ ضلعی تعمیری شکل استعمال کرتے ہیں کیونکہ انہیں ان کے مالک نے اب تک یہی سکھایا اور اسی کی ان کے لیے وحی کی ہے۔
چھتے میں جنسی طورپر نمو پانے والی مکھی صرف ملکہ مکھی ہی ہوتی ہے اورجسامت کے لحاظ سے بھی یہ سب سے بڑی مکھی ہوتی ہے۔ کارکن مکھیاں ملکہ مکھی کی پیدائش کے لیے 2 دن کے لاروے کا انتخاب کرتی ہیں۔ اور یہ 11 دن کے بعد اپنے انڈے یا سیل سے برآمد ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ 18 نکھٹو مکھیوں(نر) کی ایک جماعت کے ساتھ جفتی کرتی ہے اور اس جفتی کے دوران یہ انڈے بنانے کے لیے لاکھوں جرثومے حاصل کرتی ہے ،جن کو یہ اپنی دو سالہ عمر کے دوران استعمال کر لیتی ہے۔ جفتی کے دس دن بعد ملکہ مکھی انڈے دینا شروع کر دیتی ہے۔ یہ روزانہ 3000 کے قریب انڈے دے سکتی ہے۔
نکھٹو مکھی جو کہ نر مکھی ہوتی ہے اس کا چھتوں میں شہد کے بنانے میں کوئی کردار نہیں ہوتا اورنہ ہی یہ پھولوں سے رس چوستی ہے ،اس کا صرف ایک کام ہے کہ وہ ملکہ مکھی کے ساتھ جفتی کرتی ہے۔ علاوہ ازیں اگر چھتے میں خوراک کی کمی وغیرہ ہو جائے تو انہیں چھتے سے باہر بھی نکال دیا جاتا ہے۔ کارکن مکھیاں جسامت کے اعتبار سے سب سے چھوٹی ہوتی ہیں۔ ایک چھتے میں 50,000 سے 60,000 کارکن مکھیاں ہوتی ہیں، ان کی عمر بھی مختصر ہوتی ہے اور یہ 28 سے 35 دن تک ہوتی ہے ، تاہم ستمبر اور اکتوبر کے درمیان پیدا ہونے والی مکھیاں سردیوں کا پورا موسم گزارتی ہیں۔ یہ ایک منٹ میں 11,400 دفعہ اپنے پروں کو پھڑپھڑاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی پرواز کے دوران ایک نمایاں بھنبھناہٹ سی محسوس ہوتی ہے۔
کارکن مکھیاں انڈوں سے بچے نکالنے،ان کو غذا مہیا کرنے اوران کے لیے رہائشی کمرے تیار کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتی ہیں۔ ان کی آبادیوں میں بے کار افراد کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ کارکن مکھیاں تمام دن اڑتی ہوئی پھولوں سے ماالحیات نیکٹر تلاش کرتی ہیں۔ ہر پھول کے نیچے مٹھاس کا ایک قطرہ ہوتا ہے۔ مکھیاں اس کی تلاش میں ڈال ڈال منڈلاتی ہیں اور جہاں سے مل جائے اسے اپنے منہ کی تھیلی میں رکھ کر چھتے کو لوٹ جاتی ہیں اور اپنی برادری کو اس علاقہ میں مزید ماالحیات کی موجودگی یا غیر موجودگی کی اطلاع بھی دیتی ہیں۔ ابتدائی طور پر اس ماالحیات میں 50 سے 80 فی صد پانی ہوتا ہے۔ چھتے میں لے جا کر اسے گاڑھا کیا جاتا ہے اور جب اس سے شہد بنتا ہے تو اس میں پانی کی مقدار 16 سے 18 فی صد کے درمیان رہ جاتی ہے۔
یہ مکھیاں خط استوا کی حدت سے لے کر برفانی میدانوں کی برودت تک میں زندہ رہ سکتی ہیں۔ مگر ان کے چھتے کا اندرونی درجہ حرارت 34 سینٹی گریڈ کے قریب رہتا ہے۔ اگر اس پاس کا موسم 49 سینٹی گریڈ تک بھی گرم ہو جائے تو چھتا متاثر نہیں ہوتا۔ ٹھنڈک میں زیادتی کی وجہ سے ذخیرہ پر گزر اوقات اور خوشگوار موسم کا انتظار کرتی ہیں۔ ایک چھتا سال میں تقریبا 500 کلو گرام ماالحیات حاصل کر کے اس سے شہد تیار کرتا ہے، چھتوں میں شہد کے علاوہ موم اور پولن کے دانے بھی ذخیرہ کیے جاتے ہیں۔ پھولوں کی پتیوں کے درمیان ان کے تولیدی اعضا ہوتے ہیں۔ مکھی جب اس کو چوسنے کے لیے کسی پھول پر بیٹھتی ہے تو نر پھولوں کے تولیدی دانے اس کے جسم کو لگ جاتے ہیں جن کو پولن کہتے ہیں۔ پولن کے دانے لگی مکھی جب دوسرے پھول پر بیٹھتی ہے تو اس کے نسوانی حصے ان دانوں کو اپنی جانب کھینچ کر باروری حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح مکھی کی اڑان زراعت کے لیے ایک نہایت مفید خدمت سر انجام دیتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں پیدا ہونے والی 90 اقسام کی زرعی پیداوار کی ترویج اور باروری صرف شہد کی مکھی کی مرہون منت ہے۔ پولن کے جو دانے بچ جاتے ہیں ان کو چھتے میں لے جا کر کارکنوں کی خوراک میں لحمی اجزا کے طور پر شامل کر دیا جاتا ہے۔ ان کی کچھ مقدار شہد میں بھی موجود ہوتی ہے۔
شہد بیماریوں کے لیے شفا ہے
مختلف رنگوں کامشروب (شہد) نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غورو فکر کرتے ہیں۔
قرآن نے شہد کو شفا للناس کہا ہے۔جس کی افادیت کو آج سائنس نے بھی تسلیم کر لیا ہے۔ شہد کے کئی رنگ ہوتے ہیں۔ زرد ،سفیدی مائل یا سرخی مائل یا سیاہی مائل۔ اور ان رنگوں کے بھی مختلف اسباب ہوتے ہیں۔ تاہم ہر قسم کے شہد میں چند مشترکہ خواص ہیں۔سب سے اہم خاصیت یہ کہ ہے بہت سی بیماریوں کے لیے شفا کا حکم رکھتاہے الا یہ کہ مریض خود سو مزاج کا شکارنہ ہو جیساکہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے:
ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس آکر کہنے لگا میرے بھائی کا پیٹ خراب ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا اس کو شہد پلا وہ دوبارہ آ کر کہنے لگا ،یا رسول اللہ ! شہد پلانے سے تو اس کا پیٹ اور خراب ہو گیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا قول سچا اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ جا اسے پھر شہد پلاوہ تیسری بار آیا اور کہنے لگا میں نے شہد پلایا لیکن اسے اور زیادہ پاخانے لگ گئے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اللہ نے سچ کہا اور تیرے بھائی کے پیٹ نے جھوٹ کہا اس نے پھر شہد پلایا تو وہ تندرست ہو گیا۔
Labels:
Abbottabad News
Monday, 8 October 2012
پاکستانی نوجوان ٹیلنٹ میں کسی سے کم نہیں:نو رید اعوان
ایبٹ آباد: ایم ایم اے گروپ آف کمپنیزکی اندرون و بیرون ملک شاندار کامیابی و مقبولیت کے بعد اب ایم ایم اے گروپ اہلیان ایبٹ آباد کیلئے ایک اور اعلی ترقیاتی منصوبہ پیش کرنے جارہا ہے ایم ایم اے گروپ کے ماضی میں شاندار ریکارڈ کے پیش نظر اسی کمپنی کے زیر انتظام ایبٹ آباد کے ہونہار اور قابل طلبہ کیلئے بزنس سکول کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے جس میں ضلع ایبٹ آباد کے علاوہ گردونواح کے قابل ،باذوق اور میرٹ کی بنیاد پر طالب علموں کو داخلہ دیا جائے گا ۔ ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز ایم ایم اے گروپ آف کمپنیز کے چیف ایگزیکٹو ملک نورید اعوان نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ وہ اس عمل کے خواہاں ہیں کہ ایبٹ آباد کے طلباء کو ایک بین الاقوامی سطح کی درس گاہ میسر ہو جسکے لیے سکول کا پراجیکٹ عمل میں لایا جارہا ہے مذکورہ سکول کے تمام اساتذہ بیرونی ممالک کے اعلی تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں سے لائے جائیں گے یہاں کے طالب علموں کو بین الاقوامی سطح کی تعلیم فراہم کریں گے جو کہ پاکستان اور بالخصوص ایبٹ آباد کی تاریخ میں سنہری باب ہوگا ۔صحت کے احوال پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نوجوان نسل کو نشہ کرنے اور نشہ آور ادوایات استعمال کرنے سے روکنے اور انکے علاج معالجے کیلئے ایم ایم اے گروپ کے زیر انتظام ایک ہسپتال کا قیام عمل میں لایا جائے گا ۔ مذکورہ ہسپتال میں ایبٹ آباد وگرد و نواح کے نشے کے عادی افراد کا مفت علاج اور طبعی سہولیات فراہم کی جائیں گی انھیں معاشرے کا باعزت فرد بنایا جائیگا تاکہ وہ ملک وقوم پر بوجھ بننے کی بجائے پیارے وطن کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں ۔ ایم ایم اے گروپ کے مختلف پراجیکیٹس پر بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی غریب طلباء وطالبات کو ہزاروں روپے مالیت کے وظائف فراہم کیے گئے تاجربرادری کو لوڈ شیڈنگ کے پیش نظر انکی سہولت کیلئے جنریٹر فراہم کے گئے جبکہ INFP کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور کامیابی ایک اہم پیش رفت ہے آخر میں انہوں نے کہا کہ عوام کی خدمت ہی انکا شعار ہے اللہ نے انھیں ایشیا کا سب سے کم عمر بزنس مین ہونے کا اعزاز دیا ہے اورانکی خواہش ہے کر وہ اپنی تمام ترجانی و مالی صلاحیتیں صرف اور صرف اپنے ملک و قوم کیلئے صرف کریں ۔ پاکستانی نوجوان ٹیلنٹ میں کسی سے کم نہیں صرف انھیں ایک موقع فراہم کرنے کی ضرورت جو کہ ایم ایم اے گروپ انھیں فراہم کرکے قوم کے معماروں کا مستقبل سنہری اور روشن بنائے گی ۔
Labels:
Abbottabad News,
Hazara News
زلزلہ کی ساتویں برسی اربوں روپے کی امداد ملنے کے باوجودعدم توجہی کے باعث ,متاثرین آج بھی کمسپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں
ایبٹ آباد(اے پی پی، آئی این بی) اکتوبر 2005 کے تباہ کن زلزلہ سے متاثر ہونے والے ہزارہ کے4 اضلاع میں زلزلہ کی ساتویں برسی( آج )منائی جارہی ہے،متاثرہ اضلاع میں ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹگرام اورکوہستان شامل ہیں-تباہ کن زلزلہ کے بعد حکومت کی طرف سے(متاثرین زلزلہ کی بحالی اورتعمیر نو) کیلئے قائم ادارہ ایراکے ذمہ داروں نے یہاں صحافیوں کو بتایا کہ ضلع ایبٹ آباد میں زلزلہ کے دوران 579 سکولوں کی عمارتیں متاثر ہوئیں جن میں سے 268سکولوں کی عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں جبکہ30 سکولوں کی عمارتیں زیرتکمیل ہیں۔طبی مراکزکی 24سکیموں میں سے 1 تا25فیصد 1 سکیم، 26 تا 50فیصد 4سکیمیں،51تا75فیصدتین سکیمیں76تا95فیصد 4 سکیمیں جبکہ 8سکیمیں سو فیصد مکمل ہوچکی ہیں۔ایرا کے مطابق ضلع ایبٹ آباد میں تعمیر نوکاایک منصوبہ مکمل ہوا ہے،ضلع ایبٹ آباد میں ایرا نے1017سکیمیں،ڈؤنرز نے129جبکہ سپانسرز نے86سکیمیں مکمل کرنی تھیں،ایرا نے632،ڈونرز نے117جبکہ سپانسرز نے79سکیمیں مکمل کرلیں ہیں ۔ایرا کی360ڈونرز کی12جبکہ سپانسرز کی 6سکیمیں تکمیل کی مراحل میں ہیں اس طرح 378سکیمیں تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ ایرا کے ذمہ داروں نے بتایا کہ ضلع بٹگراممیں ایرا نے ضلع میں زلزلہ سے متاثرہ595،ڈونزر نے200جبکہ سپانسرز نے 517سکیمں مکمل کرنی تھی اس طرح ٹوٹل1314سکیمیوں کی تعمیر نوکرنی تھی جن میں سے ایرا نے284،ڈونرز نے 146جبکہ سپانسرز نے 501سکیمیں مکمل کرلی ہیں اس طرح مکمل ہونے والی ٹوٹل سکیمیں931ہیں جبکہ ایرا کی 212،ڈونرز کی56جبکہ سپانسرز کی16سکیمیں زیرتکمیل ہیں۔ایرا کے مطابق ضلع مانسہرہ میں 1305مختلف سکیمیں ایرا ،97سپانسرزجبکہ 1301سکیمیں ڈونرز کے ذمہ تھیں ،ایرا نے 576،ڈونرز نے67،جبکہ سپانسرز نے1250سکیمیں مکمل کرلی ہیں ،ایرا کی 485،ڈونرز کی46سکیمیں تکمیل سے مراحل سے گزررہی ہیں ،ایرا کی 244،جبکہ ڈونرز اورسپانسرز کی 7,7سکیمیں ڈیزائنگ کے مراحل سے گزررہی ہیں،اس طرح ضلع مانسہرہ میں 2705مختلف سکیموں میں سے 1898مکمل، کا581زیرتکمیل جبکہ 251سکیمیں تکمیل سے مراحل سے گزررہی ہیں۔ایرا کے مطابق ضلع کو ہستان میں ایرا نے755مختلف سکیمیں ،سپانسر نے15جبکہ ڈونرز نے51سکیمیں مکمل کرنی تھیں ،اس طرح ضلع بٹگرام میں زلزلہ سے ٹوٹل821مختلف سکیمیں متاثر ہوئیں،ایرا نے227،ڈونرز نے6جبکہ سپانسر نے14 سکیمیں مکمل ،ایرا کی 185اورڈونزر کی 22سکیمیں زیرتکمیل ہیں جبکہ ایرا کی343،ڈونرز کی 21اورسپانسرز کی ایک سکیم تاحال ڈیزائنگ کے مراحل سے گزر ہی ہے۔ایرا کے ذمہ داروں کے مطابق فنڈز کی عدم دستابی کے باعث ٹھیکیداروں کے کروڑوں روپے ایرا کے ذمہ واجب الادا ہیں جس کے باعث ٹھیکیداروں نے تمام منصوبوں پر تعمیراتی کام روکا ہوا ہے،ایرا کے ذمہ داروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ادارے کو فوری طور پر فنڈز جاری کئے جائیں تاکہ ٹھیکداروں کو ادائیگی کرکے زیرتکمیل اورڈیزائنگ کے مراحل سے گزرنے والی سکیمیں جلد مکمل کی جاسکیں۔دوسری جانب ضلع مانسہرہ میں زلزلہ کی ساتویں برسی کے موقع پربھی بھی زلزلہ سے متاثرہ دو لاکھ بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ زلزلہ سے متعلق سروے رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2005ء کے زلزلہ سے جہاں ایک نسل معذور یا موت کی نیند سوئی ہے تو وہاں ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد عدم توجہی کے باعث آج بھی کمسپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 1795 سکولوں کی تعمیر 7 سال کے عرصہ میں ممکن نہیں ہو سکی، اسی طرح 54 بی ایچ یوز بھی ابھی تعمیر نہیں ہوئیں، زلزلہ سے تباہ حال سڑکیں، سکول، ہسپتال اور دیگر کاموں کیلئے ملنے والے فنڈز دیگر کاموں پر خرچ ہونے کے باعث 6 اضلاع کے ٹھیکیداروں کے اربوں روپے ڈوب گئے ہیں جن سے ان علاقوں میں جاری تمام ترقیاتی کام بند ہو چکے ہیں، 7 سال کے عرصہ میں اربوں روپے کی امداد ملنے کے باوجود تعمیراتی کام بند ہونا لمحہ فکریہ ہے تاہم ان علاقوں کے ارکان اسمبلی کی عدم توجہی بھی واضح طورپر ظاہر ہو رہی ہے۔
Labels:
Hazara News,
manshra News
Saturday, 6 October 2012
بااثرخاندان کے طالب علم کا طالبہ پر تشددایبٹ کالج انتظامیہ نے بھی بے بسی ظاہرکردی
ایبٹ آباد ( HCP )بااثر خاندان کے طالب علم کا غریب خاندان کی
ساتھی طالبہ پر تشدد۔ بلیک میلنگ میں نہ آنے والے مشتعل طالب علم نے طالبہ
کو کلاس روم میں تھپڑ مارے اور شکایت پر بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔
تین اساتذہ کے تحریری بیان پر پولیس تھانہ میرپور نے مقدمہ درج کر لیا۔
ایبٹ کامرس کالج کی انتظامیہ نے طالبہ کو کالج سے نکال دیا۔ مستقبل تباہ
ہونے کا خدشہ۔ ایبٹ کامرس کالج میں زیر تعلیم طالبہ (ف)جو کہ ایک غریب
خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور اس کی تعلیم کا خرچہ ایک متمول شخصیت برداشت
کررہی ہے کو گزشتہ دو سال سے ذھنی اذیت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ طالبہ کے
مطابق اُسکو سوات سے تعلق رکھنے والے بلال نامی کلاس فیلو اُسکو گزشتہ دو
سال سے تنگ کررہا ہے۔ وہ اُس سے تعلقات استوار کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
طالبہ کے مطابق بلال نے آُسکو دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر وہ اُس سے تعلق
استوار نہیں کرئے گی تو وہ اُسکو پورے معاشرے میں بدنام کر دیا گا۔ طالبہ
کے مطابق وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور بلال اکثر اُس کو
دھمکیاں دیتا رہتا ہے کہ اگر اس نے اس کی بات نہ مانی تو وہ زبردستی کرئے
گا اور اُسکا خاندان بااثر ہے اور وہ غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور وہ
اس کا کچھ بھی نہیں کر سکے گا۔ طالبہ کے مطابق دو سال کے دوران وہ صرف اس
لےئے برداشت کرتی رہی کہ کہ کئیں اس کی تعلیم کا سلسلہ ختم نہ ہو جائے مگر
ان دو سالوں کے دوران اس نے ایک مرتبہ اس کو کلاس میں سر عام تھپڑ مارے جس
پر وہ ڈر کے مارے چپ رہی اور پھر دوبارہ اس کو چند روز قبل 28ستمبر کو کلاس
میں موجود استاد جہانگیر کے سامنے تھپڑ مارے جس پر وہ شکایت کے لئے کالج
پرنسپل میڈیم سدرہ کے پاس گی تو وہاں پر بلال نے اس کو بالوں سے پکڑ کر
گھسیٹا اور دیوا پر دے مارا جس سے وہ بے ہوش ہوگی تھی۔ طالبہ کے مطابق بلال
کی جانب سے کی جانے والی بلیک ملینگ پر اُس کے کالج انتظامیہ اور پرنسپل
کو بھی آگاہ کیا تھا مگر اُنھوں نے کوئی بھی ایکشن نہیں لیا ۔ طالبہ نے کہا
کہ وہ اب بھی چپ رہتی مگر اب اس کی تعلیم کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے اور وہ
اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتی ہے کیونکہ وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں
کا آسہارا بن کر معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔ اس موقع پر
طالبہ نے مطالبہ کیا کہ اعلیٰ احکام، عدلیہ، انتظامیہ اور حکومت اُس کو
تحفظ فراہم کرئیں اور وہ ہر صورت میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتی جس
میں آُس کی مدد کی جائے۔ طالبہ کے مطابق اس وقت اُس کا باہر نکلنا بھی مشکل
ہو چکا ہے اور اُسکو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ پولیس تھانہ میرپور میں درج ایف
آئی آر علت نمبر 936میں بلال کے خلاف زیر دفعہ 354کے مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق بلال کی بلیل میلنگ سے متعلق اُس نے ایبٹ کامرس کالج
کے ایم ڈی گلفام کو آگاہ رکھا تھا اور وقوعہ کے روز بلال نے اُسکو بالوں سے
پکڑ کر گھیسٹا اور روڈ تک اسی طرح گھیسٹتے ہوئے لایا ہے۔ پولیس تھانہ
میرپور ذرائع کے مطابق ملزم بلال کی گرفتاری کے لئے چھاپے جاری ہے تاہم
ملزم ابھی تک گرفتار عمل میں نہیں لائی جاسکی ہے۔ دوسری جانب ایبٹ کالج آف
کامرس کی پرنسپل میڈیم سدرہ اور ایم ڈی گلفام رابطہ کرکے موقف لینے کی کوشش
کی گی مگر کالج میں موجود عملہ نے بتایا کہ وہ موجود نہیں ہے جس پر تحریری
پیغام چھوڑا گیا مگر رات گے تک کوئی بھی موقف نہیں مل سکا۔
Subscribe to:
Posts (Atom)