Thursday, 3 October 2013

طالبان تربیت کے دوران خودکش بمباروں سے جنسی زیادتی کرتے ہیں، قومی نظامت برائے سلامتی

پاکستان اور افغانستان میں ڈاکٹروں اور سرگرم کارکنوں نے طبی لحاظ سے تصدیق کی ہے کہ اس طرح کی زیادتیوں کا ارتکاب ہوا ہے۔

ضلع بنوں کے خلیفہ گل نواز ٹیچنگ اسپتال کے ڈاکٹر محمد ہاشم نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے گفتگو میں کہا کہ ہم نے کم از کم پانچ نو عمر لڑکوں کا طبی معائنہ کیا ہے جو جنوبی وزیرستان میں طالبان کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہوئے تھے۔

ہاشم نے کہا کہ یہ لڑکے طالبان کی تحویل سے فرار ہو گئے تھے اور انہوں نے حکام کو بتایا کہ عسکریت پسندوں نے انہیں جنسی درندگی کا نشانہ بنایا تھا۔ خیبر میڈیکل کالج پشاور کے شعبہ فارنزک سائنس کے استاد مصطفٰی گل نے بھی ان نو عمر لڑکوں کے ساتھ کام کیا ہے جو طالبان کی زیادتی کا نشانہ بنے تھے۔

گل نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ ہمارے پاس یکم جنوری سے اب تک 27 ایسے کیس آئے ہیں جن میں نو عمر لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی تھی۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا کہ آیا پکڑے جانے پر عسکریت پسندوں کو جنسی زیادتی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اسپیشل برانچ کے ایک پولیس افسر خالد خان نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے گفتگو میں کہا کہ عسکریت پسند اکثر غریب بچوں کو اغوا کر لیتے ہیں اور پھر انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں طالبان کے تربیتی مراکز سے فرار ہونے والے متعدد لڑکوں نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور ان کے والدین اس سلسلے میں کچھ نہ کر سکے۔

تاہم لڑکوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والوں میں محض طالبان عسکریت پسند ہی شامل نہیں۔ خان نے بتایا کہ بعض علماء کو مساجد میں اپنے شاگردوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پشاور کی ایک مسجد میں ہم نے ایک مقامی پیش امام کے خلاف مقدمہ درج کیا جو قرآن حفظ کرنے والے ایک بچے کے ساتھ جنسی فعل میں ملوث تھا۔

http://centralasiaonline.com/ur/articles/caii/features/pakistan/main/2013/10/03/feature-01

 

0 comments:

Post a Comment