Wednesday, 11 April 2012

کچھ حقائق !!!!لیکن معذرت کے ساتھ


12اپریل کا سورج اپنی آب تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔کسی کو کیا معلوم تھا کہ یہ دن ہزارہ کی تاریخ میں سیاہ ترین دن سے منسوب ہو جائے گا۔ شہر میں احتجاج کا سلسلہ کئی روز سے جاری تھا کہ اچانک9:45 پر پولیس کی جانب سے پر امن مظاہرین پر فوارہ چوک کے مقام پر پہلا آنسو گیس کا شیل فائر ہوا اور ساتھ ہی پولیس کے شیر جوان نہتے مظاہرین پر چڑ دوڑے اور جو قابو آیا اس کی درگت بنا ڈالی۔بہت سے مظاہرین نے بھاگ کر جان بچائی۔اس کے بعد پولیس اور مظاہرین میں وقفے وقفے سے چھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور سارا دن جاری رہا۔اس اثناء میں شہر کے وست سے فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہو گئی اور تمام صحافی اس طرف بھاگے۔بہت سے پولیس اہلکاروں کو نہتے مظاہرین پر سیدا فائر کرتے ہوئے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا۔پولیس کے نوجوان دل کھول کر نہتے شہروں پر گولیاں چلا رہے تھے۔جس کے نتیجے میں 7افراد شہید ہوئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔12اپریل کو پولیس کا وحشی پن کھل کر سامنے آیا اور جو لوگ زخمیوں کو اٹھا رہے تھے ان پر بھی بے دریخ فائرنگ کی۔12اپریل کو تمام کارکن ہی پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے لیکن کوئی کابل ذکر لیڈر انگلی تک کٹا کر اس دن شہیدوں کی فہرست میں شامل نہ ہو سکا۔اور نہ ہی اب تک ان شہیدوں کی FIRدرج ہو سکی۔FIRکا نہ درج ہونا بھی اپنے اندر کئی سوالات کو جہنم دیتا ہے۔
سانحے کے بعد بھی احتجاج کئی روز تک جاری رہا،ہزارہ کا رابطہ پورے پاکستان سے منقطع رہا۔ایبٹ آباد کے علاوہ مانسہرہ ،ہری پور ،کوہستان اور دیگر اضلاع میں بھی شدید احتجاج شروع ہو گیا اور حکومتی مشنیری کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا گیا۔ تمام ہزارہ خصوصاََ ایبٹ آباد کا کنٹرول مکمل طور پر مظاہرین کے پاس تھا۔مظاہرین کے مطالبات کو مانتے ہوئے صوبائی حکومت نے کمیشن تشکیل دیا۔PMAکی پریڈ کی وجہ سے احتجاجی مظاہروں کی کال قائد تحریک بابا حیدر زمان نے واپس لے لی۔

صوبائی حکومت نے کمیشن بنانے میں آفیت جانی اور کمیشن قائم کر دیا۔ کمیشن نے تاجر ،صحافی،احتجاج کرنے والوں کے بیانات قلم بند کرنے شروع کر دیے۔یہاں ایک بات واضع کرتا چلوں کے آپ لوگ آج بھی Youtubeپر تھانہ کینٹ کے SHOآصف گوہر جس کو ایک دن پہلے ہی تھانہ کینٹ میں ٹرانسفر کیا گیا تھا وہ نہتے مظاہرین پر سیدھے فائر کرتا ہوا واضح دکھائی دے رہا ہے۔ یہ کمیشن کو نظر نہیں آیا۔اسکے علاوہ اور بھی بہت کچھ نظر نہیںآیا!!۔ ان کا فیصلہ صوبائی حکومت کو 7بے گناہوں کے ناحق خون سے بچانے میں کامیاب ہو گیا۔صوبائی حکومت جو چاہتی تھی ویسا ہی فیصلہ اسکے کمیشن نے صادر کر دیا۔
کمیشن نے ایک نادان صحافی کے بیان کو بنیاد بناتے ہوئے تمام حقائق کو پس پشت ڈال کر فیصلہ صوبائی حکومت اور پولیس کے حق میں دے دیا۔صحافی نے کہا کہ ’’کراس فائرنگ ہو رہی تھی‘‘ دراصل سے وہ کہنا چاہ رہا تھا کہ فائرنگ دونوں اطراف سے پولیس نہتے مظاہرین پر کر رہی تھی۔لیکن اس نادان صحافی کو کیا معلوم تھاکہ اسکا ایک جملہ 7شہیدوں کا خون راہگاں کر دے گا۔اس صحافی کے ایک جملے نے تمام نہتے لوگوں کو مجرم بنا ڈالا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ شہداء کی یاد منانے کے ساتھ ساتھ انکے اس ناحق خون کو راہگاں بھی نہ جانے دیا جائے اور اسکے اوپر مکمل طور پر غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائے اور اصل حقائق منظر آم پر لائے جائیں۔

0 comments:

Post a Comment