Friday, 16 November 2012

ججوں نے ڈر کے مارے دہشتگرد رہا کردیئے

وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ حکومت نے سینکڑوں دہشت گرد گرفتار کیے لیکن ججوں نے اپنے اہل خانہ کو لاحق خطرات کی وجہ سے تین ماہ کے اندر سب کو رہا کر دیا۔ یہ بات انہوں نے چودہ نومبر کو کراچی میں امن و امان کے بارے میں کابینہ کو بریفنگ کے دوران بتائی۔ ان کے بقول کراچی اور کوئٹہ میں قتل کی وارداتوں میں کالعدم لشکر جھنگوی ملوث ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنے ذرائع کے حوالے سے دعوی کیا ہے کہ وزیر  داخلہ نے کابینہ کو بتایا کہ انہوں نے پنجاب کے وزیراعلی کو خط لکھا تھا کہ انتہائی مطلوب دہشتگرد ملک اسحق کو گرفتار کیا جائے مگر انہوں نے اسے ایک معمولی کیس میں گرفتار کیا اور پھر ان کی ضمانت ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے زور دے کر کہا کہ لاقانونیت کی سب سے بڑی وجہ دہشتگرد تنظیموں کو کچھ اہم شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہونا ہے۔ ان کے بقول محرم کے دوران کراچی میں قتل کی وارداتیں بڑھنے کا خدشہ ہے۔  سرکاری ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کابینہ کے اجلاس میں ملک بھر بالخصوص کراچی میں قتل عام پر دو گھنٹے سے زائد دیر تک گرما گرم بحث ہوئی۔ جس میں وزیر قانون فاروق نائیک سمیت کئی وفاقی وزرا وزیر داخلہ پر برس پڑے۔ فاروق نائیک نے وزیر داخلہ سے تین سوال کیے کہ ٹارگٹ کلنگ کا ذمہ دار کون ہے؟ انہیں گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا؟ کراچی کا امن بحال کرنے اور ٹارگٹ کلنگ بند کرنے کا طریقہ کیا ہے؟۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بعض وزرا نے وزیراعظم پر زور دیا کہ وہ خود یا صدرِ پاکستان کراچی کی صورتحال پر اجلاس بلائیں اور اس میں متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی، اور جماعت اسلامی کو بھی مدعو کریں۔ کچھ وزرا نے کہا کہ سندھ میں لاقانونیت انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی ہے۔ کابینہ میں یہ تجویز بھی دی گئی کہ ایک وزارتی کمیٹی بنائی جائے جو انسداد دہشتگردی کے قوانین، خصوصی عدالتوں اور ان کے اختیارات اور فوری سماعت کے بارے میں قانون سازی کی سفارشات مرتب کرے۔ لیکن اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ وفاقی کابینہ میں بلوچستان کی صورتحال پر بعض وزرا نے بات کی اور وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ ملک کی اعلی قیادت کو کور کمانڈر کوئٹہ، بلوچستان کی صوبائی قیادت اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہوں کو بلا کر فوری طور پر معاملہ حل کرنا چاہیے۔

0 comments:

Post a Comment