وان فریش وہ شخص تھا کہ جس کو 1973 میں شہد کی مکھیوں کے متعلق تحقیق کرنے پر نوبل پرائز دیا گیا تھا، شہد کی مکھی کوجب کوئی نیا باغ یا پھول ملتا ہے تو واپس جا کر اپنی دوسری مکھیوں کو بھی اس کے متعلق صحیح سمت اور نقشے سے آگاہ کرتی ہے، جس کو مکھی کا ناچ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ مکھی کی یہ نقل وحرکت اور اپنی دوسری کارکن مکھیوں کو اطلاعات کی فراہمی کا ثبوت سائنسی طور پر تصویروں اور دوسرے طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے دریافت کر لیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں شہد کی مکھی کی جنس مونث بیان کی گئی ہے۔ جو شہد کو اکٹھا کرنے کے لیے گھر سے نکلتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں سپاہی یا کارکن مکھی ایک مادہ مکھی ہوتی ہے۔
شیکسپیئر کے ایک ڈرامے ہنری دی فورتھ میں کچھ خاکے شہد کی مکھی کے متعلق بھی تھے، جس میں ظاہر یہ کیا جاتا تھا کہ شہد کی مکھیاں سپاہی ہیں اور ان کا ایک بادشاہ ہے۔ یعنی شیکسپیئر کے زمانے تک لوگ یہی خیال کرتے تھے کہ کارکن مکھیاں نر مکھیاں ہیں جو اپنے بادشاہ مکھی کو جواب دہ ہیں تاہم یہ بات غلط ہے کیونکہ کا رکن مکھیاں مادہ ہوتی ہیں اور یہ اپنی ملکہ مکھی کو جواب دہ ہوتی ہیں مگر یہ بات جدید تحقیق کے بعد سامنے آئی ہے جو پچھلے 300 سال سے جاری تھی۔
اللہ تعالی نے شہد کی مکھی کے بارے میں درج ذیل آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا ہے
نیز آپ کے پروردگار نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں میں، درختوں میں، اور انگور وغیرہ کی بیل میں اپنا گھر چھتا بنا۔ پھر ہر قسم کے پھل سے اس کا رس چوس اور اپنے پروردگار کی ہموار کردہ راہوں پر چلتی رہ۔ ان مکھیوں کے پیٹ سے مختلف رنگوں کا مشروب (شہد) نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔ یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔
نحل شہد کی مکھی کو کہتے ہیں جو عام مکھی یعنی ذباب سے بڑی ہوتی ہے اور اس سور کا نام النحلاسی نسبت سے ہے کہ اس سورت میں نحل کا ذکر آیا ہے۔ اس مکھی کی طرف وحی کرنے سے مراد فطری اشارہ یا تعلیم ہے جو اللہ تعالی نے ہر جاندار کی جبلت میں ودیعت کر رکھی ہے جیسے کہ بچہ پیدا ہوتے ہی ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکتا ہے تا کہ وہاں سے اپنے لیے غذ ا حا صل کر سکے حالانکہ اس وقت اسے کسی بات کی سمجھ نہیں ہوتی۔ یہ اسی فطری وحی کا اثر ہے کہ وہ اپنے لیے ایسا چھتا یا اپنا گھر بناتی ہے جسے دیکھ کر انسا ن حیران رہ جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی ماہر انجنیئر نے اس کی ڈیزائننگ کی ہے۔
اس چھتے کا ہر خانہ چھ پہلو والا یعنی مسدس ہوتا ہے جس کے تمام ضلعے مساوی لمبائی کے ہوتے ہیں اور اس طرح ایک دوسرے سے متصل یا جڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان میں کہیں خالی جگہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ انہیں خانوں میں مکھیاں شہد کا ذخیرہ کرتی ہیں اور بیرونی خانوں پر پہرہ دار مکھیاں ہوتی ہیں۔ جو اجنبی مکھیوں یا کیڑوں کو ان خانوں میں گھسنے نہیں دیتیں۔
ایک مکھی ان مکھیوں کی سردار یا ان کی ملکہ ہوتی ہے جسے عربی میں یعسوب کہتے ہیں۔ باقی سب مکھیاں اس کی تابع فرمان ہوتی ہیں، مکھیاں اسی کے حکم سے رزق کی تلاش میں نکلتی ہیں اور اگر وہ ان کے ہمراہ چلے تو سب اس کی پوری حفاظت کرتی ہیں اور ان میں ایسا نظم وضبط پا یا جاتا ہے جسے دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اتنے چھوٹے سے جاندار میں اتنی عقل اور سمجھ کہا ں سے آ گئی۔ مکھیاں تلاش معاش میں اڑتی اڑتی دور دراز جگہوں پر جا پہنچتی ہیں اور مختلف رنگ کے پھلوں، پھولوں، اور میٹھی چیزوں پر بیٹھ کر ان کا رس چوستی ہیں۔ پھر یہی رس اپنے چھتا کے خانوں میں لا کر ذخیرہ کرتی رہتی ہیں اور اتنی سمجھدار ہوتی ہیں کہ واپسی پر اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتیں۔ راستے میں خواہ ایسے کئی چھتے موجود ہوں وہ اپنے ہی چھتا یا گھر پہنچیں گی۔ گویا ان مکھیوں کا نظم وضبط ،پیہم آمدورفت ،ایک خاص قسم کا گھر تیار کرنا، پھر باقاعدگی کے ساتھ اس میں شہد کو ذخیرہ کرتے جانا، یہ سب راہیں اللہ نے مکھی کے لیے اس طرح ہموار کر دی ہیں کہ اسے کبھی سوچنے اور غور و فکر کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
دنیا میں تمام جانور، پرندے، کیڑے مکوڑے اپنے تخفظ کے لیے گھر بناتے ہیں مگر جس طرح کا خوبصورت گھر شہد کی مکھی بناتی ہے اور پھر اس کا انتظام چلاتی ہے کسی اور پرند اور چرند کے یہاں نہیں ملتا۔ شہد کی مکھی کا وجود اندازا 10 کروڑ سال سے پایا جاتا ہے۔ ان میں کام کرنے کے لحاظ سے مکھیوں کی درجہ بندی ہوتی ہے۔ چھتے میں تین طرح کی مکھیاں ہوتی ہیں۔ ملکہ مکھی ۔ نکھٹومکھی اور کارکن مکھی ۔ مکھیوں کا چھتا چھ کونوں والے خانوں پر مشتمل ہوتا ہے، جن کی دیواریں موم سے بنتی ہیں۔ ان میں دراڑوں اور سوراخوں کو بند کرنے کے لیے درختوں کی کونپلوں سے بیروزہ کی طرح کا ایک لیس دار مادہ پروپولس حاصل کیا جاتا ہے۔ ان چھتوں میں درجہ حرارت کو قائم رکھنے کے لیے ایئرکنڈیشنڈ کا مربوط نظام ہے اور مکھیاں اپنے پسندیدہ حالات میں شدید جدوجہد کی ایک فعال زندگی گزارتی ہیں۔ یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے کہ ان مکھیوں نے آٹھ ضلعی یا پانچ ضلعی کے بجائے چھ اضلاع والی مسدسی شکل کو کیوں چنا۔ اس کی دلیل ریاضی دان یہ دیتے ہیں
چھ ضلعی ڈھانچہ ایک ایسی موزوں ترین جیومیٹری شکل ہے جس میں اکائی کا زیادہ سے زیادہ علاقہ استعمال ہو سکتا ہے۔ اگر شہد کے چھتے کے خانوں کو کسی اور شکل میں بنایا جاتا تو غیر استعمال شدہ علاقے باقی رہ جاتے ہیں۔ اس طرح کم شہد ذخیرہ ہو تا اور کم تعدا د میں مکھیاں اس سے مستفید ہوتیں علاوہ ازیں تعمیری لحاظ سے چھ ضلعی خانوں کے لیے کم سے کم موم کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ان میں شہد کی زیادہ سے زیادہ مقدار ذخیرہ کی جا سکتی ہے۔ شہد کی مکھیوں نے یقینا یہ نتیجہ خود حساب کتاب کر کے نہیں نکالا ہو گا۔ اس پر تو انسان بہت سی پیچیدہ جیومیٹریائی جمع تفریق کے بعد پہنچا ہے۔ پیدائشی طور پر ہی یہ چھوٹے چھوٹے جانور چھ ضلعی تعمیری شکل استعمال کرتے ہیں کیونکہ انہیں ان کے مالک نے اب تک یہی سکھایا اور اسی کی ان کے لیے وحی کی ہے۔
چھتے میں جنسی طورپر نمو پانے والی مکھی صرف ملکہ مکھی ہی ہوتی ہے اورجسامت کے لحاظ سے بھی یہ سب سے بڑی مکھی ہوتی ہے۔ کارکن مکھیاں ملکہ مکھی کی پیدائش کے لیے 2 دن کے لاروے کا انتخاب کرتی ہیں۔ اور یہ 11 دن کے بعد اپنے انڈے یا سیل سے برآمد ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ 18 نکھٹو مکھیوں(نر) کی ایک جماعت کے ساتھ جفتی کرتی ہے اور اس جفتی کے دوران یہ انڈے بنانے کے لیے لاکھوں جرثومے حاصل کرتی ہے ،جن کو یہ اپنی دو سالہ عمر کے دوران استعمال کر لیتی ہے۔ جفتی کے دس دن بعد ملکہ مکھی انڈے دینا شروع کر دیتی ہے۔ یہ روزانہ 3000 کے قریب انڈے دے سکتی ہے۔
نکھٹو مکھی جو کہ نر مکھی ہوتی ہے اس کا چھتوں میں شہد کے بنانے میں کوئی کردار نہیں ہوتا اورنہ ہی یہ پھولوں سے رس چوستی ہے ،اس کا صرف ایک کام ہے کہ وہ ملکہ مکھی کے ساتھ جفتی کرتی ہے۔ علاوہ ازیں اگر چھتے میں خوراک کی کمی وغیرہ ہو جائے تو انہیں چھتے سے باہر بھی نکال دیا جاتا ہے۔ کارکن مکھیاں جسامت کے اعتبار سے سب سے چھوٹی ہوتی ہیں۔ ایک چھتے میں 50,000 سے 60,000 کارکن مکھیاں ہوتی ہیں، ان کی عمر بھی مختصر ہوتی ہے اور یہ 28 سے 35 دن تک ہوتی ہے ، تاہم ستمبر اور اکتوبر کے درمیان پیدا ہونے والی مکھیاں سردیوں کا پورا موسم گزارتی ہیں۔ یہ ایک منٹ میں 11,400 دفعہ اپنے پروں کو پھڑپھڑاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی پرواز کے دوران ایک نمایاں بھنبھناہٹ سی محسوس ہوتی ہے۔
کارکن مکھیاں انڈوں سے بچے نکالنے،ان کو غذا مہیا کرنے اوران کے لیے رہائشی کمرے تیار کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتی ہیں۔ ان کی آبادیوں میں بے کار افراد کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ کارکن مکھیاں تمام دن اڑتی ہوئی پھولوں سے ماالحیات نیکٹر تلاش کرتی ہیں۔ ہر پھول کے نیچے مٹھاس کا ایک قطرہ ہوتا ہے۔ مکھیاں اس کی تلاش میں ڈال ڈال منڈلاتی ہیں اور جہاں سے مل جائے اسے اپنے منہ کی تھیلی میں رکھ کر چھتے کو لوٹ جاتی ہیں اور اپنی برادری کو اس علاقہ میں مزید ماالحیات کی موجودگی یا غیر موجودگی کی اطلاع بھی دیتی ہیں۔ ابتدائی طور پر اس ماالحیات میں 50 سے 80 فی صد پانی ہوتا ہے۔ چھتے میں لے جا کر اسے گاڑھا کیا جاتا ہے اور جب اس سے شہد بنتا ہے تو اس میں پانی کی مقدار 16 سے 18 فی صد کے درمیان رہ جاتی ہے۔
یہ مکھیاں خط استوا کی حدت سے لے کر برفانی میدانوں کی برودت تک میں زندہ رہ سکتی ہیں۔ مگر ان کے چھتے کا اندرونی درجہ حرارت 34 سینٹی گریڈ کے قریب رہتا ہے۔ اگر اس پاس کا موسم 49 سینٹی گریڈ تک بھی گرم ہو جائے تو چھتا متاثر نہیں ہوتا۔ ٹھنڈک میں زیادتی کی وجہ سے ذخیرہ پر گزر اوقات اور خوشگوار موسم کا انتظار کرتی ہیں۔ ایک چھتا سال میں تقریبا 500 کلو گرام ماالحیات حاصل کر کے اس سے شہد تیار کرتا ہے، چھتوں میں شہد کے علاوہ موم اور پولن کے دانے بھی ذخیرہ کیے جاتے ہیں۔ پھولوں کی پتیوں کے درمیان ان کے تولیدی اعضا ہوتے ہیں۔ مکھی جب اس کو چوسنے کے لیے کسی پھول پر بیٹھتی ہے تو نر پھولوں کے تولیدی دانے اس کے جسم کو لگ جاتے ہیں جن کو پولن کہتے ہیں۔ پولن کے دانے لگی مکھی جب دوسرے پھول پر بیٹھتی ہے تو اس کے نسوانی حصے ان دانوں کو اپنی جانب کھینچ کر باروری حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح مکھی کی اڑان زراعت کے لیے ایک نہایت مفید خدمت سر انجام دیتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں پیدا ہونے والی 90 اقسام کی زرعی پیداوار کی ترویج اور باروری صرف شہد کی مکھی کی مرہون منت ہے۔ پولن کے جو دانے بچ جاتے ہیں ان کو چھتے میں لے جا کر کارکنوں کی خوراک میں لحمی اجزا کے طور پر شامل کر دیا جاتا ہے۔ ان کی کچھ مقدار شہد میں بھی موجود ہوتی ہے۔
شہد بیماریوں کے لیے شفا ہے
مختلف رنگوں کامشروب (شہد) نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غورو فکر کرتے ہیں۔
قرآن نے شہد کو شفا للناس کہا ہے۔جس کی افادیت کو آج سائنس نے بھی تسلیم کر لیا ہے۔ شہد کے کئی رنگ ہوتے ہیں۔ زرد ،سفیدی مائل یا سرخی مائل یا سیاہی مائل۔ اور ان رنگوں کے بھی مختلف اسباب ہوتے ہیں۔ تاہم ہر قسم کے شہد میں چند مشترکہ خواص ہیں۔سب سے اہم خاصیت یہ کہ ہے بہت سی بیماریوں کے لیے شفا کا حکم رکھتاہے الا یہ کہ مریض خود سو مزاج کا شکارنہ ہو جیساکہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے:
ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس آکر کہنے لگا میرے بھائی کا پیٹ خراب ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا اس کو شہد پلا وہ دوبارہ آ کر کہنے لگا ،یا رسول اللہ ! شہد پلانے سے تو اس کا پیٹ اور خراب ہو گیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا قول سچا اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ جا اسے پھر شہد پلاوہ تیسری بار آیا اور کہنے لگا میں نے شہد پلایا لیکن اسے اور زیادہ پاخانے لگ گئے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اللہ نے سچ کہا اور تیرے بھائی کے پیٹ نے جھوٹ کہا اس نے پھر شہد پلایا تو وہ تندرست ہو گیا۔
شیکسپیئر کے ایک ڈرامے ہنری دی فورتھ میں کچھ خاکے شہد کی مکھی کے متعلق بھی تھے، جس میں ظاہر یہ کیا جاتا تھا کہ شہد کی مکھیاں سپاہی ہیں اور ان کا ایک بادشاہ ہے۔ یعنی شیکسپیئر کے زمانے تک لوگ یہی خیال کرتے تھے کہ کارکن مکھیاں نر مکھیاں ہیں جو اپنے بادشاہ مکھی کو جواب دہ ہیں تاہم یہ بات غلط ہے کیونکہ کا رکن مکھیاں مادہ ہوتی ہیں اور یہ اپنی ملکہ مکھی کو جواب دہ ہوتی ہیں مگر یہ بات جدید تحقیق کے بعد سامنے آئی ہے جو پچھلے 300 سال سے جاری تھی۔
اللہ تعالی نے شہد کی مکھی کے بارے میں درج ذیل آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا ہے
نیز آپ کے پروردگار نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں میں، درختوں میں، اور انگور وغیرہ کی بیل میں اپنا گھر چھتا بنا۔ پھر ہر قسم کے پھل سے اس کا رس چوس اور اپنے پروردگار کی ہموار کردہ راہوں پر چلتی رہ۔ ان مکھیوں کے پیٹ سے مختلف رنگوں کا مشروب (شہد) نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔ یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔
نحل شہد کی مکھی کو کہتے ہیں جو عام مکھی یعنی ذباب سے بڑی ہوتی ہے اور اس سور کا نام النحلاسی نسبت سے ہے کہ اس سورت میں نحل کا ذکر آیا ہے۔ اس مکھی کی طرف وحی کرنے سے مراد فطری اشارہ یا تعلیم ہے جو اللہ تعالی نے ہر جاندار کی جبلت میں ودیعت کر رکھی ہے جیسے کہ بچہ پیدا ہوتے ہی ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکتا ہے تا کہ وہاں سے اپنے لیے غذ ا حا صل کر سکے حالانکہ اس وقت اسے کسی بات کی سمجھ نہیں ہوتی۔ یہ اسی فطری وحی کا اثر ہے کہ وہ اپنے لیے ایسا چھتا یا اپنا گھر بناتی ہے جسے دیکھ کر انسا ن حیران رہ جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی ماہر انجنیئر نے اس کی ڈیزائننگ کی ہے۔
اس چھتے کا ہر خانہ چھ پہلو والا یعنی مسدس ہوتا ہے جس کے تمام ضلعے مساوی لمبائی کے ہوتے ہیں اور اس طرح ایک دوسرے سے متصل یا جڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان میں کہیں خالی جگہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ انہیں خانوں میں مکھیاں شہد کا ذخیرہ کرتی ہیں اور بیرونی خانوں پر پہرہ دار مکھیاں ہوتی ہیں۔ جو اجنبی مکھیوں یا کیڑوں کو ان خانوں میں گھسنے نہیں دیتیں۔
ایک مکھی ان مکھیوں کی سردار یا ان کی ملکہ ہوتی ہے جسے عربی میں یعسوب کہتے ہیں۔ باقی سب مکھیاں اس کی تابع فرمان ہوتی ہیں، مکھیاں اسی کے حکم سے رزق کی تلاش میں نکلتی ہیں اور اگر وہ ان کے ہمراہ چلے تو سب اس کی پوری حفاظت کرتی ہیں اور ان میں ایسا نظم وضبط پا یا جاتا ہے جسے دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اتنے چھوٹے سے جاندار میں اتنی عقل اور سمجھ کہا ں سے آ گئی۔ مکھیاں تلاش معاش میں اڑتی اڑتی دور دراز جگہوں پر جا پہنچتی ہیں اور مختلف رنگ کے پھلوں، پھولوں، اور میٹھی چیزوں پر بیٹھ کر ان کا رس چوستی ہیں۔ پھر یہی رس اپنے چھتا کے خانوں میں لا کر ذخیرہ کرتی رہتی ہیں اور اتنی سمجھدار ہوتی ہیں کہ واپسی پر اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتیں۔ راستے میں خواہ ایسے کئی چھتے موجود ہوں وہ اپنے ہی چھتا یا گھر پہنچیں گی۔ گویا ان مکھیوں کا نظم وضبط ،پیہم آمدورفت ،ایک خاص قسم کا گھر تیار کرنا، پھر باقاعدگی کے ساتھ اس میں شہد کو ذخیرہ کرتے جانا، یہ سب راہیں اللہ نے مکھی کے لیے اس طرح ہموار کر دی ہیں کہ اسے کبھی سوچنے اور غور و فکر کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
دنیا میں تمام جانور، پرندے، کیڑے مکوڑے اپنے تخفظ کے لیے گھر بناتے ہیں مگر جس طرح کا خوبصورت گھر شہد کی مکھی بناتی ہے اور پھر اس کا انتظام چلاتی ہے کسی اور پرند اور چرند کے یہاں نہیں ملتا۔ شہد کی مکھی کا وجود اندازا 10 کروڑ سال سے پایا جاتا ہے۔ ان میں کام کرنے کے لحاظ سے مکھیوں کی درجہ بندی ہوتی ہے۔ چھتے میں تین طرح کی مکھیاں ہوتی ہیں۔ ملکہ مکھی ۔ نکھٹومکھی اور کارکن مکھی ۔ مکھیوں کا چھتا چھ کونوں والے خانوں پر مشتمل ہوتا ہے، جن کی دیواریں موم سے بنتی ہیں۔ ان میں دراڑوں اور سوراخوں کو بند کرنے کے لیے درختوں کی کونپلوں سے بیروزہ کی طرح کا ایک لیس دار مادہ پروپولس حاصل کیا جاتا ہے۔ ان چھتوں میں درجہ حرارت کو قائم رکھنے کے لیے ایئرکنڈیشنڈ کا مربوط نظام ہے اور مکھیاں اپنے پسندیدہ حالات میں شدید جدوجہد کی ایک فعال زندگی گزارتی ہیں۔ یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے کہ ان مکھیوں نے آٹھ ضلعی یا پانچ ضلعی کے بجائے چھ اضلاع والی مسدسی شکل کو کیوں چنا۔ اس کی دلیل ریاضی دان یہ دیتے ہیں
چھ ضلعی ڈھانچہ ایک ایسی موزوں ترین جیومیٹری شکل ہے جس میں اکائی کا زیادہ سے زیادہ علاقہ استعمال ہو سکتا ہے۔ اگر شہد کے چھتے کے خانوں کو کسی اور شکل میں بنایا جاتا تو غیر استعمال شدہ علاقے باقی رہ جاتے ہیں۔ اس طرح کم شہد ذخیرہ ہو تا اور کم تعدا د میں مکھیاں اس سے مستفید ہوتیں علاوہ ازیں تعمیری لحاظ سے چھ ضلعی خانوں کے لیے کم سے کم موم کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ان میں شہد کی زیادہ سے زیادہ مقدار ذخیرہ کی جا سکتی ہے۔ شہد کی مکھیوں نے یقینا یہ نتیجہ خود حساب کتاب کر کے نہیں نکالا ہو گا۔ اس پر تو انسان بہت سی پیچیدہ جیومیٹریائی جمع تفریق کے بعد پہنچا ہے۔ پیدائشی طور پر ہی یہ چھوٹے چھوٹے جانور چھ ضلعی تعمیری شکل استعمال کرتے ہیں کیونکہ انہیں ان کے مالک نے اب تک یہی سکھایا اور اسی کی ان کے لیے وحی کی ہے۔
چھتے میں جنسی طورپر نمو پانے والی مکھی صرف ملکہ مکھی ہی ہوتی ہے اورجسامت کے لحاظ سے بھی یہ سب سے بڑی مکھی ہوتی ہے۔ کارکن مکھیاں ملکہ مکھی کی پیدائش کے لیے 2 دن کے لاروے کا انتخاب کرتی ہیں۔ اور یہ 11 دن کے بعد اپنے انڈے یا سیل سے برآمد ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ 18 نکھٹو مکھیوں(نر) کی ایک جماعت کے ساتھ جفتی کرتی ہے اور اس جفتی کے دوران یہ انڈے بنانے کے لیے لاکھوں جرثومے حاصل کرتی ہے ،جن کو یہ اپنی دو سالہ عمر کے دوران استعمال کر لیتی ہے۔ جفتی کے دس دن بعد ملکہ مکھی انڈے دینا شروع کر دیتی ہے۔ یہ روزانہ 3000 کے قریب انڈے دے سکتی ہے۔
نکھٹو مکھی جو کہ نر مکھی ہوتی ہے اس کا چھتوں میں شہد کے بنانے میں کوئی کردار نہیں ہوتا اورنہ ہی یہ پھولوں سے رس چوستی ہے ،اس کا صرف ایک کام ہے کہ وہ ملکہ مکھی کے ساتھ جفتی کرتی ہے۔ علاوہ ازیں اگر چھتے میں خوراک کی کمی وغیرہ ہو جائے تو انہیں چھتے سے باہر بھی نکال دیا جاتا ہے۔ کارکن مکھیاں جسامت کے اعتبار سے سب سے چھوٹی ہوتی ہیں۔ ایک چھتے میں 50,000 سے 60,000 کارکن مکھیاں ہوتی ہیں، ان کی عمر بھی مختصر ہوتی ہے اور یہ 28 سے 35 دن تک ہوتی ہے ، تاہم ستمبر اور اکتوبر کے درمیان پیدا ہونے والی مکھیاں سردیوں کا پورا موسم گزارتی ہیں۔ یہ ایک منٹ میں 11,400 دفعہ اپنے پروں کو پھڑپھڑاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی پرواز کے دوران ایک نمایاں بھنبھناہٹ سی محسوس ہوتی ہے۔
کارکن مکھیاں انڈوں سے بچے نکالنے،ان کو غذا مہیا کرنے اوران کے لیے رہائشی کمرے تیار کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتی ہیں۔ ان کی آبادیوں میں بے کار افراد کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ کارکن مکھیاں تمام دن اڑتی ہوئی پھولوں سے ماالحیات نیکٹر تلاش کرتی ہیں۔ ہر پھول کے نیچے مٹھاس کا ایک قطرہ ہوتا ہے۔ مکھیاں اس کی تلاش میں ڈال ڈال منڈلاتی ہیں اور جہاں سے مل جائے اسے اپنے منہ کی تھیلی میں رکھ کر چھتے کو لوٹ جاتی ہیں اور اپنی برادری کو اس علاقہ میں مزید ماالحیات کی موجودگی یا غیر موجودگی کی اطلاع بھی دیتی ہیں۔ ابتدائی طور پر اس ماالحیات میں 50 سے 80 فی صد پانی ہوتا ہے۔ چھتے میں لے جا کر اسے گاڑھا کیا جاتا ہے اور جب اس سے شہد بنتا ہے تو اس میں پانی کی مقدار 16 سے 18 فی صد کے درمیان رہ جاتی ہے۔
یہ مکھیاں خط استوا کی حدت سے لے کر برفانی میدانوں کی برودت تک میں زندہ رہ سکتی ہیں۔ مگر ان کے چھتے کا اندرونی درجہ حرارت 34 سینٹی گریڈ کے قریب رہتا ہے۔ اگر اس پاس کا موسم 49 سینٹی گریڈ تک بھی گرم ہو جائے تو چھتا متاثر نہیں ہوتا۔ ٹھنڈک میں زیادتی کی وجہ سے ذخیرہ پر گزر اوقات اور خوشگوار موسم کا انتظار کرتی ہیں۔ ایک چھتا سال میں تقریبا 500 کلو گرام ماالحیات حاصل کر کے اس سے شہد تیار کرتا ہے، چھتوں میں شہد کے علاوہ موم اور پولن کے دانے بھی ذخیرہ کیے جاتے ہیں۔ پھولوں کی پتیوں کے درمیان ان کے تولیدی اعضا ہوتے ہیں۔ مکھی جب اس کو چوسنے کے لیے کسی پھول پر بیٹھتی ہے تو نر پھولوں کے تولیدی دانے اس کے جسم کو لگ جاتے ہیں جن کو پولن کہتے ہیں۔ پولن کے دانے لگی مکھی جب دوسرے پھول پر بیٹھتی ہے تو اس کے نسوانی حصے ان دانوں کو اپنی جانب کھینچ کر باروری حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح مکھی کی اڑان زراعت کے لیے ایک نہایت مفید خدمت سر انجام دیتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں پیدا ہونے والی 90 اقسام کی زرعی پیداوار کی ترویج اور باروری صرف شہد کی مکھی کی مرہون منت ہے۔ پولن کے جو دانے بچ جاتے ہیں ان کو چھتے میں لے جا کر کارکنوں کی خوراک میں لحمی اجزا کے طور پر شامل کر دیا جاتا ہے۔ ان کی کچھ مقدار شہد میں بھی موجود ہوتی ہے۔
شہد بیماریوں کے لیے شفا ہے
مختلف رنگوں کامشروب (شہد) نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غورو فکر کرتے ہیں۔
قرآن نے شہد کو شفا للناس کہا ہے۔جس کی افادیت کو آج سائنس نے بھی تسلیم کر لیا ہے۔ شہد کے کئی رنگ ہوتے ہیں۔ زرد ،سفیدی مائل یا سرخی مائل یا سیاہی مائل۔ اور ان رنگوں کے بھی مختلف اسباب ہوتے ہیں۔ تاہم ہر قسم کے شہد میں چند مشترکہ خواص ہیں۔سب سے اہم خاصیت یہ کہ ہے بہت سی بیماریوں کے لیے شفا کا حکم رکھتاہے الا یہ کہ مریض خود سو مزاج کا شکارنہ ہو جیساکہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے:
ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس آکر کہنے لگا میرے بھائی کا پیٹ خراب ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا اس کو شہد پلا وہ دوبارہ آ کر کہنے لگا ،یا رسول اللہ ! شہد پلانے سے تو اس کا پیٹ اور خراب ہو گیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا قول سچا اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ جا اسے پھر شہد پلاوہ تیسری بار آیا اور کہنے لگا میں نے شہد پلایا لیکن اسے اور زیادہ پاخانے لگ گئے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اللہ نے سچ کہا اور تیرے بھائی کے پیٹ نے جھوٹ کہا اس نے پھر شہد پلایا تو وہ تندرست ہو گیا۔
0 comments:
Post a Comment