Friday 19 October 2012

اصغر خان کیس، اسلم بیگ اور اسد درانی کیخلاف کارروائی کا حکم


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس سے متعلق مختصر فیصلہ سنا دیا۔ فیصلہ چیف جسٹس نے لکھا اور انہوں نے ہی پڑھ کر سنایا، فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ یہ عوامی اہمیت کا حامل کیس ہے۔ آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی غیر قانونی سرگرمیوں میں شریک ہوئے۔ یہ انفرادی عمل تھا اداروں کا نہیں، فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ 90 کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی۔ فوج سیاست میں حصہ نہیں لے سکتی، یونس حبیب نے 140 ملین روپے دئیے۔ سات ملین روپے سیاستدانوں میں تقسیم ہوا۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ ایم آئی والوں نے غیر قانونی کام کیا ایوان صدر میں انتخابی سیل قائم ہوا جو کہ انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے۔ صدر حلف سے وفا نہ کرے تو یہ آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایوان صدر میں اگر کوئی سیاسی سیل ہے تو اسے فوری بند کیا جائے۔ اسلم بیگ اور اسد درانی فوج کی بدنامی کا باعث بنے لہذا حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے۔ سپریم کورٹ نے مزید کہا ہے کہ ایف آئی اے معاملے کی تحقیقات کرے اور جن سیاسی رہنمائوں نے رقم وصول کی تھی ان سے منافع سمیت رقم واپس لیا جائے۔ سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی صدارت میں تین رکنی بینچ نے کی۔ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ کیس کی سماعت شروع ہوتے ہی اٹارنی جنرل عرفان قادر نے عدلیہ پر تنقید شروع کر دی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت اس کیس کا سارا ملبہ موجودہ حکومت پر ڈال کر اسے غیر مستحکم کرنا چاہتی ہے۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ عدالت نے بلوچستان کیس اور کراچی بدامنی کیس میں حکومت کو غیر مستحکم نہیں ہونے دیا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اصغرخان کیس کی تحقیقات کی ذمہ داری وفاق پر نہیں چیف جسٹس اورعدلیہ پر عائد ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شہادتوں کے مطابق رقم ایوان صدر میں بیٹھے شخص کے ایما پر تقسیم ہوئی۔ کیا عدالت ایوان صدر کے ملوث ہونے کو نظر انداز کر دے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر کا منصب سیاسی نوعیت کا ہے۔ ان کے حلف میں سیاسی سرگرمیوں پر حصہ نہ لینے کی پابندی کا ذکر نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر کے منصب کو ریگولیٹ کرنا سپریم کورٹ کا کام نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ صدر کے منصب کو ریگولیٹ کرنا آئین کا کام ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہیں یہ کہنے میں ہچکچاہٹ نہیں کہ بینچ میں تعصب ہے۔ انہوں نے اصغر خان کیس کی سماعت کے لیے لارجر بینچ بنانے کی استدعا کر دی۔ انہوں نے کیس نیب کو بھیجنے یا کمیشن بنانے کی بھی تجویز دی اور اس کے ساتھ ہی اپنے دلائل مکمل کر لیے۔ وزارت دفاع کے وکیل ونگ کمانڈر عرفان نے عدالت کو بتایا کہ آٹھ کروڑ روپے کی تفصیل آئی ایس آئی اور ایم آئی سے طلب کی ہے۔ کیس پرانا ہونے کے باعث ریکارڈ کے حصول میں مشکل درپیش ہے۔

0 comments:

Post a Comment