Thursday 18 October 2012

صحافی انسانی زخموں کے تاجر ہوتے ہیں

ملالہ معصوم ہے، بہت ہی معصوم۔ اس وقت وہ جس حالت میں ہے اسے کچھ معلوم نہیں کہ اس کے نام پر سفاک سیاست کیا کر رہی ہے۔
وہ سفاک سیاست جو وادی سوات سے اسلام آباد، اور لندن سے واشنگٹن تک پھیلی ہوئی ہے، وہ اپنی غلاظت ملالہ کے معصوم چہرے کے پیچھے چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اے این پی سوات میں ہے، پی پی پی اسلام آباد، ایم کیو  ایم کا الطاف لندن میں ہے اور باراک اوباما واشنگٹن میں۔ مگر ان سب کی سیاست اب معصوم ملالہ کے ذریعے کی جا رہی ہے۔ بدنام سیاست اور بے لگام میڈیا نے اپنے اپنے مفاد کیلئے ملالہ کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اور پھر جیسے کہ کہا جاتا ہے ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے۔ یہاں بھی ردعمل ہوا، شدید ردعمل۔ بدقسمتی ہے کہ اس ردعمل کا شکار بھی وہ معصوم ملالہ بن رہی ہے جس کو کچھ معلوم نہیں۔
پاکستان کے نابالغ الیکٹرانک میڈیا نے ملالہ کو ہیرو بنانے کی کوشش کی، ایسی کوشش کہ باقی ہر خبر پیچھے رہ گئی۔ چھ سات دن تک یہ مہم جاری تھی۔ پھر سوشل میڈیا کے جنگجو تلواریں سونت کر سامنے آگئے اور ایسے آئے کہ پہلی بار معلوم ہورہا ہے کہ '' مین اسٹریم میڈیا'' کو اپنی ساکھ بچانا مشکل ہوجائے گی۔ اب سوشل میڈیا پر ملالہ غدار بن چکی ہے اور امریکی ایجنٹ بھی۔ انتہا پسند سرگرم ہیں، دونوں جانب۔ میڈیا کو تو ڈالر مل رہے ہیں مگر سوشل ویب سائٹس کے جہادی شاید بغیر معاوضے کے بھی خدمات جاری رکھنے کو تیار ہیں۔ مگر نشانہ بن رہی ہے معصوم ملالہ۔ شاید اب یہ بھی کہا جائے کہ ملالہ کو معصوم لکھنا بھی غلط ہے۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ سوات کی بچی کا کوئی قصور نہیں۔
گل مکئی کی ڈائری کے خلاف اب ایک طبقہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ لوگوں کی بڑی اکثریت اس ڈائری کو سراہتی بھی ہے مگر کتنے لوگ جانتے ہیں کہ یہ ڈائری بی بی سی اردو سروس کا رپورٹر عبدالحئی کاکڑ لکھتا تھا ؟؟ گیارہ برس کی پٹھان بچی کو اگر یہ معلوم بھی ہو کہ فرعون کی داڑھی تھی یا نہیں، اور برقعہ پتھر کے دور کی یادگار ہے یا قبل از مسیح کی تاریخ کا، مگر یقینا اس کو اتنی کم عمری میں بی بی سی کو ایک ڈائری لکھ کر بھیجنے کا طریقہ نہیں معلوم ہوگا۔ اسلام آباد کا کوئی پڑھا لکھا بچہ بھی برطانوی نشریاتی ادارے تک اپنی تحریر پہنچانے اور اسے چھپوانے کے لائق نہیں۔ برطانوی حکومت کے فنڈز سے پروپیگنڈہ کے مقصد کیلئے شروع کئے گئے اس ادارے نے گل مکئی کے کردار کو تخلیق کیا۔ اور یہ اس کے اپنے کوڈ آف ایتھکس کے خلاف تھا۔
سوات میں حالات خراب ہوئے تو میڈیا کو وہاں کے حالات رپورٹ کرنے کیلئے ایسے افراد کی ضرورت تھی جو طالبان کے خلاف بات کریں۔ بی بی سی پشاور کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ وہ سوات سے کوئی ایسا کردار تلاش کرے۔ عبدالحئی کاکڑ نے سوات کے صحافیوں سے رابطہ کیا اور آخر کار نظر انتخاب ضیاء الدین یوسفزئی پر جا ٹھہری۔ پرائیویٹ اسکول چلانے والے ضیاء الدین نے اپنی بیٹی سے رپورٹر کی بات کرائی۔ عبدالحئی کاکڑ ملالہ سے روزانہ آدھا گھنٹہ فون پر بات کرتا، اس گفتگو کے تین صفحات کے نوٹس بناتا اور پھر اس میں سے تین پیراگراف اپنے من پسند طریقے سے ڈائری بنا کر چھاپ دیئے جاتے۔
صحافتی قوانین اور اصول کسی انٹرویو کو ڈائری کے طور پر پیش کرکے قارئین کو گمراہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ؟ بی بی سی اس کا جواب نہیں دے رہا۔ ہمارے دوست مطیع اللہ جان نے اس حوالے سے ٹی وی پروگرام کیا اور برطانوی نشریاتی ادارے کے ذمہ داران سے مئوقف لینے کی کوشش کی مگر کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ دنیا کو کیمرے کے سامنے لانے والے خود اس کا سامنا کرتے۔ ایک معصوم بچی کی جان کو خطرے میں ڈالنے سے اقوام متحدہ کے عالمی چارٹر میں بھی منع کیا گیا ہے مگر بی بی سی نے جنگ زدہ علاقے سے تعلق رکھنے والی ملالہ کا اصل نام بھی ظاہر کردیا، ہرچند کہ اب عبدالحئی کاکڑ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم نے بچی کا نام استعمال نہیں کیا بلکہ اس کے والد نے گل مکئی کو سامنے لانے کا فیصلہ کیا۔
ایوارڈ ملنے کے بعد ملالہ یوسفزئی کو میڈیا کوریج ملنا اس کا حق تھا اور وہ اس کو ملا۔ یوں وہ عام لوگوں کیلئے ایک جانی پہچانی شخصیت بن گئی۔ ملالہ نے بولنا شروع کیا اور وہ اچھا بولی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی اس کو صحت دے، زندگی عطا کرے تاکہ وہ مزید بولے، اپنی رائے کا اظہار اس کا حق ہے۔ تعلیم حاصل کرنا بھی ہر انسان کا بنیادی حق تسلیم کیا جاتاہے، ہر عورت اورمرد کا یہ حق بھی تسلیم کیا جانا چاہئے۔ طالبان نے سوات میں بچیوں کے اسکول بند کرائے، غلط کیا۔ ملالہ یوسفزئی پر حملہ کرکے ذمہ دار ی قبول کی، یہ بھی انتہائی شرمناک فعل ہے۔
معاملہ خراب کہاں سے ہوا۔؟ ملالہ پر حملے کے بعد بی بی سی اور پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کے کردار نے ہر چیز تلپٹ کردی۔ کہتے ہیں کہ زیادتی خواہ کسی بھی چیز کی ہو، اچھی نہیں ہوتی۔ یہی کچھ ہمارے میڈیا نے ملالہ کے ساتھ بھی کیا۔ معصوم بچی کو طالبان کے خلاف جنگجو بنا کر پیش کرنے، جرات اور بہادری کی علامت بنانے کے لئے اپنی حد سے زیادہ زور لگانے سے بی بی سی اور پاکستانی ٹی وی چینلز نے ہر ضابطہ اور اصول روند ڈالا۔ سات دن تک برطانوی نشریاتی ادارے نے کسی دوسری خبر کو اہمیت نہ دی اور اسی طرح ٹی وی چینلز بھی خاص ایجنڈے پر چل پڑے، دن رات ملالہ، ملالہ کے ذکر نے ان لوگوں کے زخم ہرے کردیئے جن کے پیارے خودکش حملوں اور ڈرون میزائلوں کا نشانہ بنے۔
سوشل میڈیا استعمال کرنے والے کوئی ان پڑھ، جاہل یا طالبان نہیں بلکہ انگریزی سمجھتے اور کمپیوٹرسے کھیلتے ہیں۔ میڈیا کا کردار دیکھنے کے بعد یہ لوگ میدان میں کود پڑے اور پھر یہاں بھی ملالہ، ملالہ ہوگیا مگر دوسرے انداز میں۔ غم وغصے کے بھرے لوگوں نے پھر وہ تصاویر بھی اپ لوڈ کردیں جس میں معصوم ملالہ امریکی خصوصی  ایلچی ہالبروک سے ملاقات کر رہی ہیں۔ اب بہت سارے لوگوں کیلئے ملالہ امریکی ایجنٹ ہے اور اس پر حملہ ایک سازش۔ وجہ آپ کے سامنے ہے، جب بی بی سی ہمارے لئے ہیرو تراشنے کی کوشش کرے گا تو پھر ردعمل تو ہوگا۔ پاکستانی الیکٹرانک میڈیا ایک مخصوص انداز سے جب مہم چلائے گا تو پھر اس میڈیا پر یہودی ایجنٹ ہونے کا الزام تو لگے گا۔ اعتدال بہت ضروری ہے مگر عوام کے شعور کی توہین کو وطیرہ بنانے والے ٹی وی چینل مالکان کو یہ بات سمجھ نہیں آتی۔
ہمارے امیچور میڈیا نے اس سے قبل بھی کئی ایسی حرکتیں کی ہیں مگر سبق تاحال نہیں سیکھا۔ شعیب ملک اور ثانیہ کی شادی کو لوگ ابھی نہیں بھولے۔ تشہیر ضر وری ہے مگر خبر کو خبر ہی رہنے دیں۔ حملہ کسی پر بھی ہوقابل مذمت ہے اور خبر بھی۔ جو شخصیت جتنی اہم ہوگی اس کو اتنی ہی کوریج ملے گی، یہ بھی حقیقت ہے۔ لیکن کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ جتنی تشہیر ملالہ کے واقعے کی ہوئی اتنا تو بے نظیر بھٹو قتل کو بھی ٹی وی پر ٹائم نہیں ملا تھا، مسلسل تین سو گھنٹے کی کوریج۔
خلیل جبران نے کہا تھا کہ صحافی انسانی زخموں کے تاجر ہوتے ہیں۔ شکر ہے خدا نے جبران کو ہمارے دور میں جینے کی سزا نہیں دی ورنہ وہ زخم زخم ملالہ کو بیچنے والے میڈیا کو دیکھتا تو خودکشی کرلیتا۔

0 comments:

Post a Comment